فکر معاش

سیاہ گھنے بالوں سے بھری کشادہ پیشانی، لمبی خم دار ابرو کے سائے سے جھانکتی گہری، چمک دار آنکھیں، ستواں ناک اور نوجوانی کی سرحد کو چھوتی گھنی مونچھوں کے نیچے گداز ہونٹ خالق کی عمدہ تخلیق کی گواہی دیتے نظر آرہے تھے۔ موسم گرما اپنی عروج پر تھا،گرمی کی حدت سے دھکتا سرخ و سفید چہرہ لیے سکندر لمبی لائن میں لگا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔

صبح سویر “امی جی”سے ڈھیروں دعائیں لیے آج پھر اپنی قسمت آزمانے نکلا تھا،”شاید قسمت کی دیوی مہربان ہوجائے”.150 لڑکوں میں اسکا نام بھی سرکاری نوکری کی بھرتیوں میں پرائز بانڈ کی مانند آیا تھا اور وہ یہ قیمتی موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا.تحریری ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد انٹرویو کے لیے لیٹر آجانا خوش بختی ہی سمجھی جاتی ہے ورنہ تو سارے ہی سرکاری ادارے اپنا اپنا کام بخوبی کرنا جانتے ہیں۔

نام پکارے جانے پر معقول سے افسر کے سامنے آدھے گھنٹے کی بات چیت اختتام ہونے پر گویا یوں لگا جیسے سولی سے لٹکی جان کو راحت میسر ہوئی ہو، سکندر بہت پر اعتماد تھا پر افسر کی بددلی اور شعبے سے ہٹ کر کئے گئے سوالات اسے بےچینی سے دوچار کررہے تھے۔

گھر واپس آکر کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کو لیٹ گیا نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی مختلف خیالات کی بھرمار کے ساتھ گزرتا وقت اور گردش حالات۔ اب اسے آہستہ، آہستہ سمجھا رہے تھے کہ زندگی اتنی بھی آسان نہیں بھاری ذمےداریوں کے بوجھ تلے خود کو ہر وقت ہر معاملے میں مضبوط ثابت کرنا اتنا آسان نہیں۔

وہ بڑھاپے میں اماں ابا کی آس اور بہن بھائیوں کا واحد سہارا تھا جسے ہر تئیں کامیاب ہونا تھا کیونکہ اسکی کامیابی ہی وہ واحد چپو تھی جس سے نیا پار لگنی تھی۔ گیس جلدی جانے کے باعث بجھتی آگ کو روکنے کی کوشش بے سود ہوتے دیکھ اماں کسی بات کےجواب میں باورچی خانے سے نکلتی ابا کو دلاسہ دے رہی تھیں وہ بگڑتی طبیعت کے باعث ہر وقت جھنجھلاتے رہتے یہ کمبخت خشک کھانسی بھی تو کسی طرح انکی جان نہیں چھوڑرہی تھی تمام طریقے آزما کراب تھک سے گئےتھے گرمی کی حدت اور موئی بے وقت جانے والی بجلی نے زندگی اور بھی مشکل کردی تھی نہ پنکھے کی ہوا میسراور نہ مناسب استعمال کا پانی۔

بیڑا غرق ہو ان ذمےداران کا” اماں ساتھ ہی ساتھ دل کے پھپھولےبھی پھوڑ رہی تھیں وہ گرمی سے بیزار ہو کر چھوٹے سے صحن میں آ بیٹھا  ابا کی بیماری، جھکی کمر، بڑھتی عمر اورلاغرجسم قلت خوراک کا اعلان کررہا تھا۔

ڈگریوں کے اعلی نمبر، دوستیاں، دعائیں کچھ بھی تو کام نہ آرہا تھا مشکلات روز اول کی طرح سر تانے کھڑی تھیں شب وروز سست روی سے گزرتے اسے مایوسی کی جانب دھکیل رہے تھے اسی کشمکش میں مقامی اخبار میں کسی دفتر کا اشتہار دیکھا۔ جو قابلیت مانگی گئی تھی وہ سو فیصد اس پر پورا اترتا تھا سرکاری نوکری کا انتظاربڑھتا جارہا تھا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا بیوقوفی تھی۔ وہ دئیے گئے وقت اور پتے پر ٹائم سے پہلے ہی پہنچ گیا۔انتظار گاہ میں اپنا نام سن کر کمرے کی جانب بڑھا،باہر نکلتے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اسے ملازمت پر رکھ لیا گیا تھا۔

اگلے دن وقت مقرر سے پہلے آفس پہنچ گیا، مینیجر نے دیگر ضروری چیزوں کی اپڈیٹس،فائلوں کا پلندہ اور آفس کے حساب سے ڈریسنگ کر کے آنے کا سمجھا کر مانو آج کی رعایت دے دی تھی۔ اسکی ساری خوشی سوچ میں تبدیل ہوگئی اینڈروایڈ ایڈوانس موبائل، ٹپ ٹاپ جوتے اور پینٹ شرٹ کے ساتھ ٹائی،،اب یہ سب وہ کیسے ممکن کر پائے گا بھلا اسکے پاس کہاں اتنے وسائل کہ وہ یہ لگژری افورڈ کرسکے۔ سادہ کپڑوں میں بھی وہ کسی سے کم نہ لگتا تھا، پر اسکے آفس کی یہی ریکوائرمینٹ تھی۔ اک نئی پریشانی سر تانے اسکے سامنے کھڑی تھی،گھر میں رکھا پینٹ شرٹ اپنے تئیں”اسے بہترین دکھنے والا” کو پہن کر اگلے دن آفس روانہ ہوگیا۔ سارے کام بخوبی سمجھتے،نبھاتے،کرتے چند روز خاموشی اور سوچ میں گزر گئے۔

آج چھٹی کے دن بڑے عرصے کے بعد دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے اپنی نوکری کا بتاتے ہوئے وہ کئی چیزوں کے لاحاصل کا تذکرہ کرنے لگا. احمد اور عالم اسے دلاسہ دیتے اپنے کپڑے دینے پر اتفاق کرنے پر زور دیتے ہوئے گھر روانہ ہوگئے۔ زبیر اسے اپنے نئے کام کا بتاتے ہوئے رازداری سے بولا میرے بھائی ساری جھنجھٹوں کو گولی مار!میرے ساتھ چل۔ وہ اسکی بات اور کام کا سن کر حیران رہ گیا.تربیت کا فرق یا پھر بوڑھے ماں باپ کی محبت یا شاید بہن بھائیوں کی پرواہ میں سے کسی ایک چیز نے اسکا دامن تھام رکھا تھا. مگر دل عجیب بےچینی کا شکار تھا.اگر زبیر کے ساتھ جائے تو کسمپرسی,بہتر حالات میں بدل سکتی ہے.پر لوگوں کے سوالات کا جواب کیسے دیاجائیگا؟اتنی مشکل سے لگی نوکری چھوڑنی پڑے گی؟

بے شمار سوالات کے جواب میں ایک ہی آواز کی گونج,کہ ڈرنا کیسا سب کررہے ہیں ایک میں بھی صحیح….وہ دل میں کچھ سوچ کر صبح کی تیاری کرنے لگا کہ فلحال اسی پر اکتفا کرنا تھا۔ یوں پورے دو ہفتے گزر گئے.آج زبیر سےملاقات کادن تھا.بہت انتظار کے بعد بھی زبیر نہ آیا اور اسکا نمبر بھی بند جارہا تھا.وہ پریشان اور مایوس ہوکر گھر واپس آگیا. سارا دن انتظار میں ہی گزر گیا.رات کے کسی پہر زبیر کا میسج آیا جو وہ نیند کے باعث نہ دیکھ سکا۔ صبح شور سے آنکھ کھلی اماں پڑوس کے گھر بھاگتی ہوئی دکھائی دیں.پورے محلے میں ہنگامہ تھا۔

جو خبر اسنے سنی تھی وہ اسے اندر تک جھنجھوڑ گئی تھی.کمرے میں آکر وہ اپنے آفس فون کرنے لگا جونہی موبائل اٹھایا زبیر کا میسج دیکھ کر اسکا حلق خشک ہوگیا. میسج میں آج شام ملاقات کا کہا تھا اور مصروفیت کے سبب کل نہ ملنے کی معذرت کرلی تھی.

تمام کاروائی کے بعد پولیس کے عملے نے رات مغرب کے بعد زبیر کی نعش ورثاء کے حوالے کی. نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے سکندر کے آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے.ان آنسوؤں میں بچپن کے دوست کی جدائی کا دکھ,مہنگائی کے باعث کم پڑھے لکھے بےروزگار نوجوانوں کی خواہشات پانے کی جستجو میں غلط روش اختیار کرنے کا دکھ,بوڑھے ماں باپ کے ساتھ دو چھوٹے بچوں اور 6 ماہ کی حاملہ بیوی کی بےچارگی و شرمندگی کا دکھ,یا یوں کہیے کہ سوالات بے حساب اور جواب ندارد……

سکندر اپنے آپ کو اس جگہ سوچ کر اندر تک کانپ گیا.دوست کے لئے دعائے مغفرت کی اور چل دیا. نجانے کتنے سکندر،زبیر بن چکے ہونگے یا بننا چاہتے ہونگے۔ پر اسکا انجام بڑا تکلیف دہ ہے.سکندر دعا گو تھا کہ اے رب عظیم دئیے گئے پر قناعت اور استقامت عطا فرما.فتنوں کے دور میں نمود ونمائش کے حاصل کے خمار سے نکال کر ایمان کی استقامت دے.