سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی لاتعداد ریلز،ویڈیوز میں اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ بےدردی اور سفاکیت کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے انسانی جانوں کی ناقدری پر یہ محاورہ سو فیصد درست بیٹھتا ہے۔
دل خون کے آنسو روتا ہے
یا کلیجہ پھٹ جائے گا
اہل فلسطین اس محاورے کو حقیقتاً برداشت کررہے ہیں، انسانی تخلیق کو پروردگار نے احسن الخالقین کےطور پر پہچان کرواکر گویا اپنی بہترین کاریگری سےآشنائی کرواتے ہوئےمسلمان کو اپنا نائب گردان کر اسکی اہمیت و فضیلت سے بھی آگاہ کردیا ہے پر فلسطین پر ہونے والے ظلم و بربریت کا نہ ختم نہ ہونے والا یہ سلسلہ آج کے مسلمان کی اہمیت اور قدر کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے.منافقین، اسلام دشمن قوتیں ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے علمبردار،مسلم فرد واحد کے لئے بے حسی اور سفاکیت کا اعلیٰ ترین مظاہرہ پیش کررہے ہیں۔جانوروں کے حقوق کے پاسدار فلسطین کے جیتے جاگتے،معصوم بچوں، بوڑھوں، عورتوں غرض اپنے مابین ہر تفریق کو بالائے طاق رکھ کر موت کابہیمانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔
مسلم امہ ایک جسم کی مانند ہے۔اور جسم کا یہ درد زور پکڑنے کے باوجود عالم اسلام کی خاموشی گہرا سناٹا بڑھا کر بے حساب سوالات اٹھا رہی ہے۔ اگر ایسا ہی کچھ میرے یا آپ کے ساتھ ہوتا تو شاید ہم یہ استقامت و ثابت قدمی قائم نہ رکھ پاتے۔ تمام سازوسامان۔ بے سروسامانی اور اسباب زندگی میسر نہ ہوتے ہوئے بھی اہل فلسطین کا جذبہ ایمانی تروتازہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں نہ آج جیسی آسائشیں میسر تھیں نہ ہی آج کا سا ایڈوانس دور تھا. وہ اس وقت کے حساب سے کم ترین سروسامانی کے ساتھ زندگانی بسر کرنے کے عادی اس قدر اذیت اور آزمائش سے نہ گزرے تھے۔ جس سے آج کا فلسطینی مسلمان گزر رہا ہے۔
ماڈرن طرز عمل کے ساتھ دنیا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر تمام سہولتوں سے مزین آج کے دور کے فلسطینی مسلمان کے لیے دوگنی آزمائش ہے۔ اور اس بے سروسامانی میں بھی اللہ کی وحدانیت سے کوئی منکر ہوا نہ ہی کسی نے گھٹنے ٹیکے۔ روز اول سے لے کر اب تک ہر گزرتا دن قوت ارادی اور حذبہ ایمانی کا زور پکڑکر ہر مسلمان کے لیے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اے ملت مسلمہ ہم ایک ہیں۔
آؤ ہمارا پرسان حال بنو کہ ہم تمھارے ہی جسم کا حصہ ہیں۔ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ہم اپنے جسم کے اس دکھتے حصے کے درد کا سامان کرنے سے قاصر ہیں اور اہل فلسطین گویا کہنا چاہتے ہوں۔
غضب کی دھوپ تھی اپنائیت کے جنگل میں
شجر بہت تھے مگر کوئی سایہ دار نہ تھا