ضلع کرم کے علاقے بگن میں سرکاری مذاکراتی ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ اس افسوسناک واقعے نے نہ صرف امن معاہدے کی سنگینی کو آشکار کیا ہےبلکہ ملک میں افراتفری پیدا کی ہے۔ آج ہم ان دہشت گرد عناصر کی موجودگی پر بھی روشنی ڈالیں گے۔ یہ دہشت گرد پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ملک دشمن عناصر اور شرپسند قوتیں اپنی مذموم سرگرمیوں سے باز نہیں آرہے ہیں چاہے امن کی کتنی ہی کوششیں کی جائیں۔
بگن میں سرکاری مذاکراتی ٹیم پر حملہ ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ 40 سے 50 مسلح افراد کی موجودگی اور ان کا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کارروائی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں مقامی سہولت کاروں کی حمایت حاصل ہے۔ اس حملے کا مقصد نہ صرف علاقے میں امن معاہدے کو ناکام بنانا تھا بلکہ فرقہ وارانہ فسادات کو بھی ہوا دینا تھا۔
امن معاہدہ کسی بھی علاقے میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقامی کمیونٹی کا تعاون ناگزیر ہے۔ بگن کے واقعے نے یہ واضح کیا ہے کہ صرف حکومتی کوششیں کافی نہیں ہے بلکہ مقامی افراد کو بھی شرپسند عناصر کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔
حکومت اور سیکورٹی اداروں نے اس واقعے پر فوری ردعمل دیا ہے جس میں شرپسندوں کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی شامل ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے حملے کو امن و امان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیا۔ مزید برآں آئی جی پولیس خیبرپختونخوا کی سربراہی میں سیکورٹی اجلاس کا فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومتی مشینری کو نہ صرف امن معاہدے کی حفاظت کرنی ہوگی بلکہ ان عوامل کو بھی ختم کرنا ہوگا جو ان معاہدوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ شرپسند عناصر کی موجودگی اور ان کے سہولت کاروں کا کردار ایک بڑا چیلنج ہے۔ جبکہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی بھی اشد ضرورت ہے جو صرف فوجی اقدامات تک محدود نہ ہو بلکہ سماجی و اقتصادی مسائل کو بھی حل کرے۔
کرم میں امن و اماں بحال کرنے کے لیے چند تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مقامی کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر شرپسند عناصر کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ انٹیلی جنس نظام میں بہتری کی گنجائش ہے۔ انٹیلی جنس نظام کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ ایسے واقعات کی پیشگی روک تھام کی جا سکے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اور سماجی مہمات کا آغاز کیا جائے۔ شرپسند عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔ بگن کے واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے والے عناصر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ تاہم حکومت، سیکورٹی ادارے اور عوام مل کر ان سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ملک کے امن و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔