سرد رات تھی،یخ بستہ ہواؤں کی سرسراہٹ نے ماحول کو پراسرار بنا دیا تھا۔ فاریہ نے گرم چائے کا کپ اٹھایا اور اسٹڈی روم کی طرف بڑھی۔
وہ روز رات کواسٹڈی روم میں اپنی چھوٹی سی لائبریری سے خود کو مستفید کرتی اور اپنی روزانہ کی ڈائری قلم بند کر تی۔ وہ ڈائری میں اپنے معمولات کے ساتھ شہر ،ملک اور بین الاقوامی خاص واقعات بھی ضرور لکھتی تھی۔آج بھی اس کو پہلے “بیتے دن” ناول کا مطالعہ کرنا تھا. پھر ڈائری لکھنی تھی۔ لیکن اس نے ناول چھوڑ کر ڈائری ہی اٹھا لی آج اس سال کی ڈائری کا آخری دن تھا 31 دسمبر۔
بے ساختہ اس کی زبان پر آگیا کہ” کیسے گزر گیا ایک سال جیسے چند لمحے ! ابھی 24 شروع ہوا !اور اب اختتام !ایسی ہی ہماری زندگی! ابھی دنیا میں آئے اور ابھی واپسی کا سفر”۔
وہ سوچ رہی تھی۔2420ءکیسے گزرا ؟وہی گزشتہ سالوں کی طرح! بے سکونی، پریشانی بدامنی،کرپشن،لوٹ مار،چھیناچھپٹی،مہنگائی، یوٹیلٹی بلز، اسکولوں کی فیسیں، ٹریفک کے مسائل، بیماریاں، بے روزگاری اور معاشی مسائل؟۔۔۔
اس کے ساتھ برینڈز کی دوڑ، ہوٹلنگ ریسٹورنٹ کا بڑھتا رجحان۔۔۔۔
کہیں دو وقت کی روٹی کا حصول یا زندگی کی ڈور کو قائم رکھنا مشکل اور کہیں مال کی ناختم ہونے والی ہوس۔
یہ سب سوچتے ہوئے اس کے ذہن میں فلسطین کی تصویر آگئی تقریبا سوا سال ہو گیا اسرائیل کی جارحیت کا اکیلا مقابلہ کرتے ہوئے ،کوئی ایک اسلامی ملک ان کا ساتھ دینے والا نہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈگمگانے لگے اب وہ گہری سوچ میں مبتلا تھی۔
فاریہ کی امی کسی کام سے اسٹڈی روم میں آئیں تو انہوں نے فاریہ کو گہری سوچ میں پاکر فاریہ کو آواز دی فاریہ! فاریہ!
فاریہ نے چونک کر کہا “جی امی!
کیا ہوا بیٹی؟ایسے کیوں بیٹھی ہوں ؟امی نے پوچھا
“بس اپنی ڈائری دیکھ رہی تھی امی 2023 کے اختتام پر بھی یہی تھا4 202 کے اختتام پر بھی یہی کچھ نہیں بدلا! “فاریہ نے غمگین آواز میں کہا۔
کیا حالات بدل نہیں سکتے؟فاریہ
“کیوں نہیں بدل سکتے ہیں بیٹا! بدل سکتے ہیں، اگر ہم بدلنا چاہیں۔” امی جواب دیتے ہوئے۔
“بیٹا حالات کی خرابی ظلم و نا انصافی کی وجہ سے ہے۔بیٹا جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے لیکن مٹانے کے لیے ہم کو کھڑا ہونا پڑےگا۔ جب پیاس لگے تو پانی اٹھ کر پینا پڑتا ہے۔اسی طرح اگر ہم حالات بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اٹھنا ہوگا۔ اپنے اندر اخلاص اوردیانت داری پیدا کرنا ہوگی۔ اور یاد رکھو بیٹا بکھرے تنکے ہوا کےایک جھونکے سے اڑ جاتے ہیں، اور جب ان کو اکٹھا باندھ دیا جائے تو جھاڑو بن جاتی ہے ۔اسلیے بیٹا سب سے پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی بن کر سوچنا۔ اسکے علاوہ کچھ نہیں ۔دشمن کا حربہ یہی ہے کہ وہ ہم کو علاقائی، نسلی،مسلکی گروہوں میں تقسیم کر کے آپس میں لڑائے۔ مایوس نا ہو پاکستان کا قیام بھی نا ممکن تھا لیکن دیانت، خلوص اور اتحاد نے ممکن بنایا ۔آج بنگلہ دیش اور شام میں حالات نے کروٹ لی۔ پاکستان بھی میں بھی بیداری کا سورج طلوع ہوگا اپنے حصے کا کام کرنا ضروری ہے۔
فاریہ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی اس نے ایک عزم کے ساتھ مسکراتے ہوئے امی کی طرف دیکھا۔