آپ ہماری بے بسی اور بے حمیتی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ پچھلے ایک ہفتے میں شام کے شہر غوطہ میں 500 سے زیادہ مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں 200 کے لگ بھگ معصوم اور پھول جیسے بچے فاسفورس اور کیمیائی بموں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ ان کے نازک نازک جسموں سے جس طرح تڑپ تڑپ کر روح نکلی ہوگی اسکا اندازہ میں اور آپ شاید چاہ کر بھی نہیں کر سکتے ہیں ۔ حضرت عمرو بن عاصؓ سے ان کے بیٹے نے ان کی وفات کےوقت پوچھا تھا کہ ” ابا جان ! آپ کو کیسا محسوس ہورہا ہے تو اس جلیل القدر صحابی نے درد سے کراہتے ہو جواب دیا ” بس اتنا سمجھ لو کہ گویا اونٹ کو سوئی کے ناکے میں سے گذارا جارہا ہے یا پھر کسی ململ کے کپڑے کو کسی خاردار درخت پر ڈال کر کھینچا جا رہا ہے ” ۔ یہ طبعی موت کا حال ہے اور وہ بھی ایک صحابی رسولﷺ کی موت ۔ آپ ذرا سی دیر کے لئیے آنکھیں بند کر کے اس کرب کا اندازہ تو کریں جو ان کھلنے سے پہلے مرجھا جانے والی کلیوں پر گذری ہوگی ۔ ہمارے دل میں تو شاید اتنی بے چینی بھی نہیں ہے جتنی اپنے بیمار بچے کو دیکھ کر ہوتی ہے ۔ ہم نے تو شاید تھوڑی دیر کے لئیے اس ” بے کار ” سے واقعے پر سوچنا بھی گوارا نہیں کیا ہوگا ۔ ارے میں حکمرانوں کو کیا کہوں ؟ اس روئے زمین پر موجود 57 سے زیادہ مسلمان ممالک میں بسنے والے ڈھائی ارب کے لگ بھگ بے ضمیر اور ضمیر فروش مردہ لاشیں خود کو ” کلمہ گو ” کہتی ہیں ۔ نعمان بن بشیر ؓ سے میرے پیارے نبیﷺ نے فرمایا تھا “” یہ امت تو ایک جسم کی مانند ہے ، جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار میں تپنے لگتا ہے ” ۔ کاش کو ئی نعمان بن بشیر کو یہ پیغام دے کہ ” امت ” ہوتی تو درد ہوتا نا ۔ ہم تو زمانہ ہوا شیعہ ، سنی ، دیو بندی ، بریلوی ،اہلحدیث اور وہابی میں تبدیل ہوچکے ہیں ، اس کے بعد پاکستانی ، مصری ، سعودی اور نجانے کون کونسی قومیتیں اپنا چکے ہیں ۔اقبال نے کہا تھا ۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
ہماری ہر پہچان موجود ہے سوائے انسان اور مسلمان کے ۔ ہم تو اب دین بھی سامنے والے کو نیچا دکھانے کے لئیے سیکھتے ہیں ۔امت مسلمہ بانجھ ہوچکی ہے ۔ محمد بن قاسم ، صلاح الدین یوبی ، طارق بن زیاد ، موسی بن نصیر اور محمود غزنوی اس ڈھائی ارب کی امت میں ناپید ہوچکے ہیں اور بھلا ہوں بھی کیسے ؟ ماؤں کے پاس سوائے قرآن کے فیس بک اور واٹس ایپ کا ہر میسج اور اسٹیٹس پڑھنے کے لئیے وقت ہے ۔ وہ بے چاریاں تو مارننگ شو بھی ” ریپیٹ ٹیلیکاسٹ ” میں دیکھتی ہیں کیونکہ ” ہم سے کب پیار ہے ، ہاں نیند تمھیں پیاری ہے ” ۔ اندلس کے بادشاہ عبداللہ نے اندلس کی چابیاں فرڈینینڈ کے حوالے کرنے کے بعد پہاڑی پر کھڑے ہو کر جب اپنے محل پر نظر ڈالی تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، تو اس کی ماں عائشہ ہی تھی جس نے کہا تھا کہ ” جب مردوں کی طرح اس کی حفاظت نہیں کر سکے تو اب عورتوں کی طرح آنسو نہ بہاؤ ” ۔ اور جب احمد شاہ ابدالی نے وقتی طور پر انگریزوں سے مصالحت کا فیصلہ کیا تو یہ اس کی ماں ہی تھی جس نے بیٹے کو کہا ” اگر تم نے اپنے دشمنوں سے مصالحت کی تو میں تمھیں کبھی اپنا دودھ معاف نہیں کرونگی ” ۔ اور پھر دنیا نے پانی پت کی وہ عظیم الشان لڑائی دیکھی کہ انگریز اپنی لاشیں تک اٹھانا بھول گیا ۔ خیر چھوڑیں یہ پرانے وقتوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔ فی الحال پی – ایس – ایل پورے زور و شور سے جاری و ساری ہے ۔ اور اسکا کوئی میچ تو چھوڑیں ، کوئی اوور بھی ہم سے ” مس ” ہوجائے یہ اس سے کہیں زیادہ افسوسناک ہے کہ شام میں 200 بچے تڑپ تڑپ کر مرجائیں ۔ اس مردہ امت مسلمہ سے تو شاید وہ کرسٹیانو رونالڈو زیادہ با غیرت ہے کہ جس نے ایک اسرائیلی فٹ بالر سے اپنی شرٹ تک ایکسجینج نہیں کی ، اس نے پیپسی کے اشتہار تک میں کام کرنے سے منع کردیا ۔ عرب کے ایک شیخ سے مجھ جیسے ” وقتی جذباتی ” مسلمان نے سوال کیا کہ آپ اسرائیل سے جنگ کیوں نہیں کرتے ہیں ؟ تو اس شیخ نے درد بھرے لہجے میں فرمایا کہ ” جب وہ مسلمان ہوجائینگے تب اس بارے میں سوچیں گے ” ، ابھی تو ہمیں یمن سے ، قطر سے ، ایران سے ،فلسطین میں موجود حماس سے اور مصر میں اخوان سے جنگ کرنی ہے ۔آپ کمال ملاحظہ کریں دنیا کی سب سے مہنگی ترین پراپرٹی پیرس کی شانزے لیزے ہے اور وہاں پر 90 فیصد جائداد عرب شہزادوں کی ہے ۔ امریکی معیشت کو سہارا دینے کے لئیے 60 ٹریلین ڈالرز عرب شہزادوں کے امریکی بینکوں میں موجود ہیں ۔ 65 فیصد سے زیادہ معدنی وسائل رکھنے والے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے ۔ دنیا میں تیل پیدا کرنے والے 11 ممالک میں سے 10 مسلمان ہیں ۔ صرف مدینے میں سونے کی 45 کانیں موجود ہیں لیکن پھر بھی ہم بے بس ہیں۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت پی – ایس – ایل میں مصروف عمل ہے اور امت مسلمہ کا میڈیا ” سری دیوی ” کی موت پر بے انتہا غمگین ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا ” ویک اینڈ ” بھی میری طرح گھر والوں کے ساتھ موج مستی کرتے گذرا ہوگا ۔ بس ان لوگوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی توبہ ضرور کرلیں کیونکہ یقینا یہ ہنستے بستے دن شام ، عراق اور لیبیا کے مسلمانوں پر بھی اس طرح گذر چکے ہیں ۔
حکمرانوں سے زیادہ عوام قصور وار ہیں جو شام کی بلکتی سسکتی انسانیت اور معصوم بچوں کی تڑپا دینے والی آوازوں کو نظر انداز کرکے PSL میں مگن ہیں، اور ہمارے میڈیا کو سری دیوی کی موت کا افسوس ہے اسی پر نشریات کئے جا رہا ہے۔ شام کے مسلمانوں کیلئے ان کے ٹی وی چینلز کے پاس ایک سیکنڈ کا بھی ٹائم نہیں اللہ برباد کرے ایسے بے درد لوگوں کو، مغرب مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہے اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے مغربی طرز و انداز اپنا کر انہیں رجھانے کے چکر میں ہیں کہ شاید وہ بخش دیں۔ یہی لوگ یہودیوں کے پیچھے پڑے تھے یہودیوں کو روئے زمین پر جائے پناہ نہیں ملی تھی۔ یہاں تک کہ انہیں متحد ہونا پڑا۔ اور اب یہ اقوام مسلمانوں کے پیچھے پڑی ہیں