رنگت کا شور

خوب صورتی محض سفیدی میں نہیں اورحسن کا معیار گوری رنگت نہیں ۔ اس زندگی میں کچھ کردار ایسے ہیں جو چلتے پھرتے کہانی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہر انسان کی زندگی میں قدرت نے ایک مثبت پہلو رکھا ہوتا ہے ۔ سارہ بھی ایسا ہی ایک کردار ہے جسے پانچ برس کی عمر میں اس کے والدین آنکھوں میں مثبت خواب سجائے اسے مکتب میں بھیجتے ہیں کہ ایک روز سارہ پڑھ لکھ کر اس قوم کی خدمت کرے گی ۔ سارہ کو بدقسمتی سے بچپن ہی سے معاشرے سے وہ پیار نہ ملا جس کی وہ حق دار تھی ۔ پڑوس کے بچے اور بزرگ سب ایسے کالی کالی کہہ کر مخاطب کرتے مگر سارہ نے کبھی ماتھے پر شکن تک نہ لائی۔ سارہ کے والدین ان باتوں سے اکثر افسردہ ہوتے تھے آخر وہ کس کس کو اور کیا کیا کہہ کر سمجھاتے ۔

وقت گزرتا گیا سارہ کا مکتب میں پہلا دن اتنا بھی شان دار نہ رہا جتنی اس کو مسرت تھی ۔ مکتب کے بچے بھی اس کو کالی کلوٹی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ۔ سارہ سب کو بھائی اور بہن کہہ کر مخاطب کرتی لیکن کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا تک گوارا نہ کرتا ۔ وقت گزرتا گیا سارہ نے کتابوں کو اپنا دوست بنایا ۔ ہر سال جماعت میں اول آتی رہی ۔ جماعت ہشتم میں اب زیر تعلیم تھی لیکن اس کے چہرے کی رنگت اب بھی ایک مسئلہ تھا لیکن ہر جماعت میں ایک کردار ایسا بھی تھا جس نے سارہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور وہ کردار اس کی معلمات کا تھا ۔ استاد کبھی بھی بچوں کو اس کی رنگت کی وجہ سے اس سے نفرت یا محبت نہیں کرتے ۔ ایک حقیقی استاد وہی ہوتا ہے جو بچوں میں محبت کو پروان چڑھاتا اور انھیں بلند حوصلہ فراہم کرتا ہے ۔

میڈم شمیم اپنے ادارے میں ایک قابل معلمہ کے طور پر پہچانی جاتی تھی ۔ ایک روز انہیں کلاس میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو دیکھا سب بچے قہقہ لگا رہے ہیں اور وہیں ایک بچی ایسی بھی بھی ہے جو اداس بیٹھی ہے ۔ میم شمیم نے بچوں کو مخاطب کیا اور پوچھا : ” بچو ! کیا تم جانتے ہو اچھے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ “ جماعت سے یکے بعد دیگرے مختلف آوازیں آنے لگی : صاف ستھرے ، اچھا بولنے والے ، اچھا پڑھنے والے ، بڑوں کی بات ماننے والے ۔۔۔۔ میم شمیم نے سوال تبدیل کیا کہ برے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ تو جماعت کے کچھ بچے سارہ کی جانب دیکھ کر ہنسنے لگے اور کہیں سے آواز بلند ہوئی سارہ کی طرح کالے کلوٹے ۔۔۔کلاس میں بلند قہقہ لگا ۔ میم شمیم نے سب کو غصے سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ! بچو ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ پاک کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ ہم اس کے تخلیق کردہ انسان کی تذلیل کریں ؟ اس کو برا بھلا کہیں، کیا ہم سب ایک جسم کی مانند نہیں ہیں ؟ کیا ہم اپنی مرضی سے رنگت کا انتخاب کر سکتے ہیں ؟ ہم سب میں اللہ تعالیٰ نے ایک جیسا نظام رکھا ہے یعنی ہماری خوشیاں اور غم مشترکہ ہیں پھر کیوں ہم اپنی بےعزتی پر نہیں مسکراتے اور دوسروں کی عزت نفس مجروح کر کے ہم قہقہ لگا رہے ہیں ۔ یاد رکھیں ہماری تعلیم اور تربیت اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں رکھتی جب تک ہمارے اخلاق اور عادات و اطوار سے دوسرا شخص محفوظ نہیں ۔ اس معاشرے میں جینے کا سب کو یکساں حق ہے ۔کیا آپ میں سے کوئی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اللہ پاک رنگت کی وجہ سے سارہ سے نفرت اور آپ سے زیادہ محبت کرتا ہے ؟ جماعت میں ایک پل کے لیے مکمل خاموشی چھا گئی اور پھر سب بچے ندامت سے سر جھکائے کھڑے ہوئے اور سارہ کی جانب مخاطب ہوئے کہ بہن ہمیں معاف کر دیں ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے ۔ سارہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری اور آنکھوں سے شبنم کے قطروں جیسے آنسو بہہ رہے تھے ۔

سارہ سب کی جانب متوجہ ہوئی اور کہا ہم سب ایک ہی ہیں چاہے سفید ہوں یا سیاہ، ذات، قوم، قبیلہ وغیرہ تو مختلف ہو سکتا ہے مگر الحمد لله ! ہم سب مسلمان ہیں۔ ہمارا اللہ ایک، قرآن ایک اور منزل بھی ایک ہے۔ ہم جس دین اسلام پر ایمان رکھتے ہیں وہ دین ہمیں بھائی چارے کا درس دیتا ہے تو پھر ایسی رنجش کیوں ؟ معافی نہیں عہد کریں آج کے بعد ہر ایک کی عزت نفس کا خیال رکھیں گے اور معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ کریں گے جس میں ایک مخصوص طبقہ ہی سانس لینے کا اہل سمجھا جاتا ہے۔سب بچوں نے عہد کریں خود بھی عمل کریں گے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں گے۔