ملک کے اصل وارث

قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے معاشی اور سیاسی حالات انتہائی مخدوش رہے۔ پے در پے دگرگوں حالات و مسائل نے عوام کو مایوسی کے دلدل میں دھکیلے رکھا۔ جھوٹے وعدوں اور دلاسوں نے عوام کا سیاسی رہنماؤں پر سے اعتبار ختم کر دیا۔ ملک کا کوئی ادارہ بھی قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ یہی وجہ رہی کہ ہمارے ملک کا لائق اور قابل طبقہ مغربی ممالک کا رخ کرتا دکھائی دیا اور دوسری طرف مغربی ممالک نے نہایت ہوشیاری سے اپنے پسندیدہ حکمرانوں کو ہمارے سروں پر مسلط کیے رکھا جو اسلامی نظام کے نفاز میں ہمیشہ رکاوٹ بنے رہے۔ لیکن چہار سو پھیلے فطرت کے رنگ تو کچھ اور ہی سبق دیتے ہیں۔

اس کائنات کا نظم و ضبط، ستاروں کی روشنی، سورج کی تابناکی، چاند کی چمک، رات اور دن کی آنکھ مچولی، دریاؤں کی روانی، سمندروں کی خاموشی، پہاڑوں کی سختی، پرندوں کی اونچی اڑان، اور سب سے بڑھ کر پانچ اوقات میں اللہ کی کبریائی کی پکار، کیا تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے مایوسی اور نا امیدی کی گنجائش باقی رہتی ہے؟ ہر مسلمان گھر میں نسخہ کیمیا “قران پاک” کے موجود ہونے کے باوجود ہدایت سے کوسوں دور ہیں۔ دنیا کی رونق اور رنگینیوں کے تو اسیر بن گئے لیکن اپنے ارد گرد کے اندھیروں کو دور کرنے کی فکر نہ کی۔

جب ہدایت سے ہی دور ہو گئے تو لامحالہ فطرت سے بھی دور ہو گئے۔ آزاد خطۂ زمین کی صورت میں اتنی بڑی نعمت ملی، جو بے بہا خزانوں سے مالا مال، جسے کوئی بھی لٹیرا آسانی سے نہیں لوٹ سکتا تھا۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، تو جو اس ملک کی حفاظت کے دعویدار بنے، انہوں نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اس نعمت کی بے قدری کر ڈالی۔ ان حالات میں بیرونی دشمنوں سے ملک کو کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔ عوام رہنماؤں کی سیاسی چال بازیوں کے گھن چکر میں بے وقوف بنتے چلے گئے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے چلے گئے اور متوسط طبقہ وہ تو اپنی تھوڑی بہت جمع پونجیوں اور عزتوں کو بچانے کے چکر میں ملک سے فرار کی راہیں تلاش کرنے لگے اور امید اور نا امیدی کی کشمکش میں تمام خوابوں سے دستبردار ہو گئے۔

لیکن وقت نے گزرنا تھا تو وہ گزر ہی گیا لیکن اندھیرے کے بعد روشنی بھی زندگی کی بڑی حقیقت ہے۔ اس لیے ہمیں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مایوسی کفر کے مترادف ہے۔ گرداب میں پھنسی کشتی کو کنارے لگانے کے لیے پاکستان کا نوجوان طبقہ پرعزم ہو چلا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ ملک سے فرار کے بجائے اس ملک میں اپنے قدم جمانے ہوں گے۔ آج کا نوجوان باشعور ہے اور جانتا ہے کہ ہمیں پہلے اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات درست کرنے ہوں گے اور پھر ملک کو غلامانہ سوچ اور عیاش پرست حکمرانوں سے آزادی دلوانے کی کوششیں کرنی ہوں گی۔ تاکہ عوام کے جلتے بجھتے خوابوں کو تعبیر دی جا سکے۔ وطن کی آزاد ہوائیں ان کا مقدر ہیں۔ شکاری لٹیروں سے بچنے کے لیے انہیں اپنی پروازیں اونچی کرنی ہوں گی۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے ترقی پسندانہ نظریات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ تاکہ مخلص قیادت اُبھر کر سامنے آئے۔ تاکہ قیامِ پاکستان کا اصل مقصد حاصل کیا جا سکے۔ آج کے نوجوان ہی اس ملک کے اصل وارث ہیں جو دنیا میں پاکستان کے وقار کو بحال کریں گے۔

علامہ اقبال نے ایسے ہی نوجوانوں کے لیے کیا خوب کہا ہے

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اسکو اپنی منزل آسمانوں میں