اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے “غضبناک” نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔.” او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔” دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔” ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے.” میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی….. میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی….” تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر”. اماں یہ کہتے ہوئے۔ ” خوفناک نگاہوں “۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ‘ ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔”۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ ” میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری’ ناک پر دھرا تھا’۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی’ ناک” ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ ” او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو’ ناک ہی نہیں رہی” اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ” پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ ” اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں ! ہم نے اپنی ‘ناک پھلائی “۔ بلال ہمارے جذبات کا بڑی گہری نگاہوں سے مشاہدہ کر رہا تھا!.بولا! ویسے باجی تم اتنی نک چڑھی تو نہ تھیں جتنی اب ہو گئی ہو۔ ہم نے ایک بار پھر اسے شعلہ بار نگاہوں سے گھورا تم اپنی نا ک کی سیدھ میں چلو ورنہ ناک رگڑوا دوں گی چھوٹے ہو تو چھوٹے رہو۔ بڑے بننے کی کوشش نہ کرو۔’ ویسے باجی میرا نین نقش تو بہت اچھا ہے تم چاہو تو اپنا اگلا موضوع یہی چن لو۔۔ ‘ ناک۔ ” تمہاری بھی ناک رہ جائے گی آج کل لڑکیاں ویسے بھی ناک چوٹی میں گرفتار رہتی ہیں (بناؤ سنگھار میں لگے رہنا )اور تم جو ناک میں بولتے ہو شکل دیکھی ہے اپنی۔ ( نہ منہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھا )۔
میں نے اپنی زبان پوٹہاری کی ٹانگ توڑی ویسے تو ہم اور ہمارے حکمران اتنے ایماندار ہیں کہ ہم نے دنیا کے سامنے اپنی ناک کٹوا ہی ڈالی ہے وہ کہتے ہیں نا ناک نہ کان نتھ بالیوں کا ارمان ان کو چاہیے تھوڑی سی اپنے اندر قومی حمیت پیدا کر لیں۔ شاید ہم پھر ایک مرتبہ دنیا کے سامنے اپنی ناک اونچی کرنے کے قابل ہو جائیں بلال نے ہماری باتیں سنی اور بولا! ‘ میں تو بچپن ہی سے اسمارٹ ہوں اور تم بڑی ہو اس لیے تم جو کچھ بھی کہہ لو میں تو ناک سے مکھی بھی نہیں اڑاؤں گا.” او ہو ! ‘ بڑے معصوم بن رہے ہو اماں اور ابا کو تو تم نے ناکوں چنے چبوا ڈالے اور اب کہہ رہے ہو کہ تم ناک کی طرح سیدھے ہو۔۔ جبکہ تمہاری ناک پکڑتے ہی دم نکل جاتا تھا۔”۔ ” باجی سچ نہ ا گلوانا “ناک پر مکھی” تو تم بھی نہیں بیٹھنے دیتی تھیں. یہ تو اچھا ہوا محکمہ تعلیم کے ہتھے چڑھ گئیں۔ ورنہ اب تک اردو ادب میں تم نے محاوروں کی ایک نئی کھیپ تیار کر لینی تھی ہم نے اپنی اور اردو کی ” ناک ساکھ ” رکھنے کی خاطر بلال کی کڑوی کسلی باتوں کو برداشت کر لیا باجی اگر تھوڑا اور پڑھ لیا ہوتا تو ملک کے کسی اعلیٰ عہدے پر کام کر لیتیں۔ خوامخواہ غریب مصنفوں کے ٹولے میں شامل ہو گئیں ۔ بلال نے چوٹ کی ۔۔ ‘ارے کہاں میرے بھائی! ‘ ناک ہو تو نتھنا سوبے ” ہم کہاں اور کہاں مصنف ہم تو ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں اور اپنے ناک رکھنے کی خاطر ناک سے خود ہی لکیریں کھینچ لیتے ہیں یہ تو ہمارے بیچارے ایڈیٹر کا حوصلہ ہے کہ وہ اپنی ناک آؤٹ ہونے سے بچا لیتے ہیں اور ہمارے مضامین کو۔ ” ناکوں ناک “کر دیتے ہیں اس سے پہلے کہ آپ اپنی ناک اونچی کرنے کے چکر میں ہمارا یہ مضمون پڑھتے ہوئے ناک بھوں چڑھائیں اور ایڈیٹر کی ناک غصے سے لال پیلی ہو جائے۔ ہم ناک کے رستے نکل لیتے ہیں۔