عقلمند و دانا شخص دوسروں کے تجربات اور حکایات سے اپنے لیے نصیحت حاصل کرتا اور بہتری کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ آئیے ہم بھی ایک حکایت سے کچھ نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک سلطنت کے لوگ اپنے بادشاہ کا انتخاب بہت انوکھے انداز میں کرتے تھے۔ ہر سال کے آخری دن سب سے پہلے جو ان کی حدود میں داخل ہوتا وہ اسے اپنا نیا بادشاہ منتخب کر لیتے اور موجودہ بادشاہ کو “علاقہ غیر” یعنی ایسی ویران جگہ چھوڑ آتے جہاں نہ تو کھانے پینے کے لیے کچھ ہوتا اور نہ ہی روشنی کی کوئی کرن نظر آتی اور طرح طرح کے زہریلے جانور اسے نوچنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے۔ کتنے ہی بادشاہ ایک سال کی بادشاہی کے بعد اس “علاقہ غیر” میں جا کر ایسے گمنام ہوئے کہ پھر کوئی ان کا نام لیوا نہ بچا۔
سال کا آخری دن تھا۔ شہر میں داخل ہونے والا نوجوان کسی دور دیس کا اجنبی مسافر تھا۔ سب نے آگے بڑھ کر اسے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ اسے اس ملک کا بادشاہ چن لیا گیا ہے اور اسے بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ محل میں لے گئے۔ وہ نوجوان حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ تخت پر بیٹھتے ہی اس نے پوچھا کہ آپ کا بادشاہ کہاں گیا؟ درباریوں نے اسے سلطنت کا قانون بتایا کہ ہر بادشاہ کو ایک سال بعد علاقہ غیر میں چھوڑ کر ایک نیا بادشاہ چن لیا جاتا ہے۔ یہ سنتے ہی نوجوان کا ماتھا ٹھنکا لیکن وہ بہت عقلمند تھا اور عقلمند کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اس نے کچھ سوچا اور وزیروں سے کہا کہ مجھے وہ جگہ دکھاؤ جہاں تم بادشاہ کو چھوڑ کر آتے ہو۔ درباریوں نے سپاہیوں کو ساتھ لیا اور نو منتخب بادشاہ سلامت کو دور ویرانے میں اس جگہ لے گئے۔ نو منتخب بادشاہ نے وہ سنسان راستے اور بے آب و گیاہ علاقہ دیکھا اور خاموشی سے واپس آ گیا۔
اگلے دن اس نے سب سے پہلا حکم دیا کہ محل سےـ ـعلاقہ غیر تک ایک شاہراہ تعمیر کی جائےجس پر سر سبز و شاداب درخت سایہ کرتے ہوں ۔ اس کے علاوہ اس ویرانے میں پانی کے کنویں کھود دیے جائیں تاکہ وہاں سے گزرتے مسافر اور چرند پرند اپنی پیاس بجھا سکیں اور زمین کی ہریالی کا سامان ہو سکے۔ وہاں ایک پر آسائش رہائش گاہ تعمیر کی جائے اور اس کے اردگرد خوبصورت باغ لگائے جائیں۔ بادشاہ کے حکم پر عمل ہوااور تعمیر شروع ہو گئی۔ کچھ ہی عرصے میں وہ علاقہ آباد ہوگیا۔
ایک سال پورا ہوگیا لیکن کسی نے بادشاہ کو کچھ نہ کہا۔ وہ بہت حیران ہوا اور ایک دن خود ہی درباریوں سے پوچھ لیا کہ سالانہ رسم ادا کرنے میں غفلت کیوں؟ درباریوں نے کہا، بادشاہ سلامت! وہ رسم تو عارضی عیش و عشرت میں پڑ کر اپنے کل اور رعایا سے غافل ہو جانے والوں کے لیے تھی جو ایک سال کی بادشاہی کی چکاچوند میں باقی کی زندگی کو بھول جاتے اور اپنے لیے کوئی انتظام نہ کرتے تھے۔ آپ نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا، آنے والے وقت کا خیال رکھااور اپنے لیے عمدہ بندوبست فرما لیا۔ ہمیں ایسے ہی ایک دور اندیش اور صاحب فہم و فراست بادشاﻩ کی ضرورت تھی جو ہمیں مل گیا ہے لہٰذا اب ہمیں اس رسم کی ضرورت نہیں۔ اب آپ آرام سے ساری زندگی ہم پر حکومت کریں۔
تو یہ تھی ایک حکایت۔ سوچا جائے تو اس دنیا کی کہانی بھی تو ایسی ہی ہے۔ اس میں بھی ایسے لوگ بستے ہیں جو جانتے بوجھتے خود کو اس دھوکے میں مبتلا رکھتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور آئندہ زندگی کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ ایک نہ ایک دن یہ دنیا والے ہمیں بھی کسی علاقہ غیر چھوڑ آئیں گے۔ ﮐﯿا ہم نےحقیقت کا ادراک کرتے ہوئے وہاں آرام اور سکون کے لیے انتظامات ﮐر لیے ہیںیا اس عارضی دنیا ﮐﯽ مختصر سی مدت شاہانہ انداز میں گزارنے کو ہی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ یاد رکھیے! حقیقتوں سے آشنا لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھتے۔