زندگی کے مدوجزر میں انسان اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے ۔اور جب کچھ اس کی طبیعت کے خلاف ہو تو اس میں وادیلا مچانے لگتا ہے لوگوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے ۔انسان کو اپنی ذمہ داری اور اللہ کی مشیت پر بھروسہ نہیں ہوتا ۔
اسی توکل کی کمی کی وجہ سے زندگی ہمیں بوجھ لگنے لگتی ہے اور زندگی سے بے زاری ۔اور رشتوں سے دوری اختیار کر کے اپنے آپ کو مزید سوالات سے بچاتا ہے ۔ زندگی نام ہی اس چیز کا ہے جب آپ کو زندگی ٹھوکریں مارے تب بھی آپ کا اپنے رب پر بھروسہ اتنا مضبوط ہو جیسے یحییٰ سنوار نے اپنے خط میں لکھا کہ “ان تاریکی کوٹھریوں کے اندر ہر دیوار میں کھڑکی دیکھتا تھا جس سے دور افق دکھائی دیتا تھا۔ہر سلاخ میں سے روشنی پھونکتے دیکھتا تھا جو آزادی کا راستہ روشن کرتی تھی۔
23 سال کی قید گزاری جوانی کے لمحات کوٹھڑی میں گزارے لیکن ہر دن اُمید اور جو اس سے بھرپور تھا۔طرح طرح کی اذیت و تکلیف بھی ان کےیقین کی دولت نہیں چھین سکی اسی قید کو اپنے لیے جہاد کا میدان بنا لیا جہاد با لقلم کے ذریعے ایمان افروز ناول’’ الشوک والقرفل ‘‘ لکھا ۔ عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیل کی اوپن یونیورسٹی کے ذریعے عبرانی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر 15 کورس کیے دشمن نے چاہا کہ اس کوٹھری کو ان کے لیے قبر بنا دیں لیکن انہوں نے اپنے مقصد پر یقین رکھتے ہوئے اس جیل کو اپنے لیے عبادت گاہ اور اکیڈمی بنا لیا
۔قید خانے کی سختی ان کے جذبات کو شکست نہ دے سکی۔ جیل خانے میں بھی عبرانی اخبارات کے اہم مضامین کا ترجمہ کر کے اپنے قائدین کو بھجواتے تھے۔ وہ اپنے خط میں یہی وصیت کرتے رہے کہ آزادی محض ایک حق نہیں ہے جو چھین لیا گیا ہے وہ تو خیال ہے جو تکلیف کی کھوکھ سے جنم لیتا ہے اور صبر سے اس کی دھار تیز کی جاتی ہے۔
جو لوگ اپنی زندگی میں ہی موت کو بار بار خوش آمدید کہتے ہیں وہی لوگ زندگی میں امر ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی منزل کے مسافر ہوتے ہیں۔ یحییٰ سنوار نے بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا استقبال کیا۔مایوسیوں کے اندھیروں میں اُمیدوں کے چراغ جلانے والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں اصل میں یہی لوگ لیڈر ہوتے ہیں۔دنیا کو اسی طرح کے لیڈروں کی ضرورت ہے ۔