امی ہم بھی اس بار چھٹیوں میں کسی دوسرے شہر یا ملک گھومنے پِھرنے چلیں گے پری نے اسکول کا بیگ رکھتے ہی فرمائش کر ڈالی، چلو بیگ جگہ پر رکھو اور ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھا لو امی نے پری کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ امی بتائیں نا ہم چلیں گے نہ ؟پری اب ضد پر اتر آئی۔دیکھو بیٹا ابو کے بغیر کیسے سفر کر سکتے ہیں ہم جب آپ کو معلوم ہے کہ وہ اس بار بھی چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے نہیں آپائیں گے ۔
پری جھنجھلا گئی اور بولی، میری ساری سہیلیاں چھٹیوں میں کہیں نہ کہیں گھومنے پِھرنےجاتی ہیں اور ہم بس نانی دادی کے گھر ہی جا پاتے ہیں، امی نے پیار بھری نظروں سے پری کو دیکھا اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے مخاطب ہوئیں، اللّہ تعالیٰ نے چاہا تو اگلی چھٹیوں میں ہم بھی گھومنے پھرنے کسی اور شہر یا ملک چلیں گے ۔پری منہ بسورتے ہوئے اپنا یونیفارم بدلنے چلی گئی۔
یونہی وقت گزرتا گیا ،پری کے ابو کافی عرصے بعد چھٹیوں پر گھر آتے بھی تو اپنا وقت دوستوں رشتہ داروں میں گزار کر واپس چلے جاتے اور بیوی بچے انکی محبت سے ِمحروم ہی رہ جاتے، وقت گزرتا گیاپَری اور اسکے دیگر بہن بھائی یونہی اپنا دل اور خواہشوں کو مارتے جوان ہو گئے۔
ٹھیک کہا ہے کسی نے غمِ روزگار بُری بلا ہے،باپ کے ہوتے ہوے بھی دوری مجبوری بن جاتی ہے ،یہ دوریاں رشتوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتی ہیں وہ باپ کا بچوں کے درمیان رہنا کھیلنا گھومنا پِھرنا سب کچھ اس روزگار کے چکر میں ختم ہو جاتا ہے باپ اپنے بچوں کی معصوم شرارتوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتا جس کی وجہ سے قریبی رشتوں میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
خیر وقت گزر کر پری کے ابو کو اپنوں کے درمیان لے آیا مگر وہ باتیں جو دل میں تھیں جو باپ کو اولاد نے کہنی تھی وہ ضرورتیں اور محبتیں جو بانٹنی تھیں وہ کہانیاں جو ایک دوسرے کو سنانی تھیں سب دھری رہ گئیں ۔
دیارِ غیر رہنے والوں کے دکھ ایک سے ہوتے ہیں اپنوں کی محبت و الفت سے محروم رہ جاتے ہیں ۔