بیٹیوں کی تربیت

فی زمانہ والدین بیٹیوں کو تعلیم دلوانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے بیٹوں کی طرح اپنی بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوا رہے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ کہوں گی کہ بچیوں کی تربیت میں کوتاہی برت رہے ہیں یہ کوتاہی خصوصا ان کی شادی کے بعد ضرور کہیں نہ کہیں اثر انداز ہوتی ہے۔

میں سب کی بات نہیں کر رہی ہوں لیکن اپنے اس پاس اکثریت ایسے لوگوں کی دیکھتی ہوں جو بچیوں کی صحیح طرح سے تربیت کرنے سے قاصر ہیں ۔ دیکھا جائے تو بیٹیوں کی تربیت کرنے میں ماوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود پہلی درسگاہ ہے اور اس درسگاہ کا صاف ستھرا ماحول پہلی شرط ہے یعنی ماں بھی تربیت یافتہ ہو۔

ویسے تو بچوں کی شخصیت میں ماں باپ کی شخصیت کی جھلک نمایاں نظر اتی ہے خصوصا بیٹی تو ماں کا عکس ہوتی ہے اور دیکھا جائے تو تربیت کی پہلی سیڑھی ماں کا کردار وعمل ہوتا ہے، اس لئے ماں کا تربیت یافتہ ہونا پہلی شرط ہے۔ ایسی مائیں اپنی بیٹیوں کو حیا اور سلیقہ کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والے حالت کی مناسبت سے گزر بسر کرنے کے لئے صحیح رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ باحیا باسلیقہ عورت صرف گھر داری نبھانا ہی نہیں جانتی بلکہ ہر قدم احتیاط سے اٹھاتی ہیں چاہے باپ کا گھر ہو یا شوہر۔

پچھلے دنوں کچھ ماوں کی گفتگو سننے کا موقع ملا جو نہ صرف انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ انتہائی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔

نورجہاں !– میں تو اپنی بیٹی کی ہر جائز ناجائز خواہش ضرور پوری کرتی ہوں نہ جانے اسے سسرال کیسا ملے اور اسکی خواہشات پوری ہوسکیں یا نا ،اس لئے میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ میں اسے کسی بات پر منع نہیں کرتی اگر رات کے ایک بجے بھی برگر کھانے کی فرمائش کرتی ہے تو میں اسکے لئے ضرور آرڈر کردیتی ہوں۔

امبرین !– تم صحیح کہہ رہی ہو میں ہر مہینے نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے اپنی بیٹی کے لئے ضرور بنواتی ہوں کہ کل کو اسکے سسرال والے اسے یہ نہ طعنہ دیں کہ تم شادی سے پہلے کیا عیش کرکے آئی ہو جو یہاں نخرے دکھارہی ہو۔

عقیلہ !– تم دونوں سچ کہہ رہی ہو نہ جانے بچیوں کو کیسا سسرال ملے میری بھی یہی کوشش ہوتی ہے اس لئے میں اسے اسکی دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور شاپنگ وغیرہ کرنے سے منع نہیں کرتی ۔

جب مجھے ان خواتین کی گفتگو کے بارے میں معلوم ہوا تو بہت افسوس ہوا ، کیا مذکورہ بالا طریقے سے پرورش اور تربیت پانے والی لڑکیاں سسرال میں کسی معمولی بھی کمی بیشی کو قبول کر پائیں گی۔

مجھے اپنی والدہ کا طریقہ کار یاد آگیا جو میں نے اپنی بہو اور بیٹی سے شیئر کیا۔

الحمدللہ ! خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اماں ہم بہنوں کی دو خواہشات پوری کرتی تو ایک بہانے سے رد بھی کردیتی ، کھانا بنانے سے لیکر گھر داری کے تمام اصول زہن نشین کروائے کہ کسطرح شرم حیا کے دائرے میں سسرال میں رہنا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں اور تلخیوں کو درگزر کرنا ضروری ہوتا ہے اس گھر میں اپنے اصولوں کو مسلط کرنے کے بجائے اس گھر کے اصول اپنانا تاکہ تم اس گھر کا حصہ بن سکو۔ اماں کی انہی نصیحتوں سے ہم بہنوں نے مشکل حالات کا سامنا بھی بڑی ہمت اور سمجھداری سے کیا۔ مختصر یہ کہ بیٹیوں کو گھر بسانے کے گر سکھانے چاہئے نہ کہ گھر بگاڑنے کے۔