کبھی ناختم ہونے والا نازک دور

ملک کی ترقی کی باتیں کرنے والے سیاستدان اور تاجر دونوں بہت خوش نظر آرہے ہیں، ہر جگہ اپنی واہ واہ کرتے ہوئے اور ترقی کے ثبوت بتانے والے کبھی غریبوں کے حالت پر بھی نظر ڈال لیں تو پتا چلے گا کہ غریب کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔

اگر ملک کی ترقی اثاثوں میں اضافے سے بڑھ جاتی ہے اور تاجروں کے مزید امیر ہونے سے ہوتی ہے اور دنیا بھر سے ادھار لے کر اپنی معیشت کامستقبل سنوارنے نکلے ہیں تو جب سے پاکستان قائم ہوا ہے۔ پاکستان میں تعمیراتی امور پر بے پناہ دولت صرف کی جاچکی ہے مگر پاکستانیوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے کوششیں ناپید ہیں۔

ہر دور میں غریب روتا نظر آیا کہ مہنگائی ہورہی ہے اس کو کم کریں۔ غریب کو ہر دور میں یہی بتایا گیا کہ ملک ایک نازک دور سے گزررہا ہے اور ان شااللہ آنے والے وقتوں میں چیزیں بہتر ہوجائینگی۔عرصہ دراز سے وہی ماہرین معاشیات کام کرتے ہوئے نظر آئے جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ یا حمایت یافتہ رہے یا بیرون ممالک سے امپورٹ کئے جاتے رہے، ان نام نہاد معاشی ماہرین پر کبھی تنقید ہوتی ہے نہ ان کی مجرمانہ رویوں کی وجہ سے معیشت کا جو قتل ہوتا ہے اس پر جواب طلبی۔ہم نے ایسے کئی معاشی ماہرین کو دیکھا انہوں نے کئی ایسے قوانین بنائے جس سے پارٹی کو فائدہ ہوا یا ان کے ایسے دوستوں کو فائدہ پہنچا جو تجارت میں بڑا نام رکھتے ہیں۔

یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم چاند پر جانے کے خواب تو دیکھتے ہیں اور حقیقت میں اس کیلئے کچھ نہ کوشش بھی ضرور کرتے ہیں لیکن زمین پر غربت اور افلاس کا شکار غریب آدمی کی حالت زار کو بہتر بنانے کی سعی نہیں کرتے۔ہم اداروں کو بیچنے کی باتیں کرتے ہیں مگر اداروں کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ حکومتی ادارے عوام کے مسائل حل کرنے اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کیلئے بنائے جاتے ہیں تاکہ حکومت انہی اداروں سے پیسے کماکر ان پیسوں سے امور چلائے جائیں۔افسوس کہ یہ ادارے صرف چند مخصوص طبقات کو سہولیات فراہم کرنے تک محدود ہیں اور جب یہ ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں تو انہیں اونے پونے داموں بیچ دیا جاتا ہے۔

آج ٹیکس کا جو بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہے اس کی وجہ بننے والے سرکاری اداروں کو ختم کیا جارہا ہے اور ریاستی امور چلانے کیلئے اب کوئی سرکاری ادارہ پیسہ کما کر اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا جس کا اثر عام آدمی کی زندگی پر ہورہا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں ریاستیں عوام سے لئے گئے ٹیکس اور دیگر ذرائع سے کمائے جانے والے پیسوں سے چلتی ہیں لیکن پاکستان میں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے ادارے خود کماکر اپنا بوجھ اٹھانے کے بجائے سفید ہاتھی بن کر معیشت کو کچلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ریاستی امور کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے ناکارہ اداروں کا بوجھ عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔

مہنگائی کا جن آج تک اس لئے قابو میں نہیں آسکا کیونکہ ہمارے تاجر حضرات پاکستان کی تمام اشیاء کو ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ امیر سے امیر تر ہوجائیں اور حکومت کے خزانے بھریں۔یہاں یہ نہیں سوچا جاتا کہ پاکستانی عوام کیلئے ہر وہ چیز ان اقدامات کی وجہ سے مہنگی ہوجاتی ہے جو ایکسپورٹ کی جاتی ہیں کیونکہ پاکستانیوں کے اپنے استعمال کیلئے وہ اشیاء دستیاب نہیں رہتیں۔دنیا بھر میں عوام جب اشیاء استعمال کرتے ہیں اور کوئی چیز اضافی ہو تو اس کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں نظام ہمیشہ سے الٹا رہا ہے۔

ہم گندم اور چینی اضافی پیدا کرنے کے دعوئے کرکے پہلے بیرون ممالک سستے داموں بیچ دیتے ہیں اور شومئی قسمت کہ چند روز بعد وہی گندم اور چینی کم پڑنے پر بیرون ممالک سے مہنگے داموں خرید کر معیشت کی قبر میں مزید کیل ٹھونک دیتے ہیں۔پاکستان کی تمام صنعتیں ڈیڑھ سو فیصد سے زیادہ ترقی دکھارہی ہیں، پاکستان اسٹاک ایکس چینج ایک سال سے بھی کم عرصے میں 49 اعشاریہ 2 فیصد اوپر جاچکی ہے لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تمام اداروں میں چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، ملازمین کی تنخواہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی کیونکہ اداروں کے مالکان اپنی ترقی کا سوچتے ہیں اور حکومت ان کی ترقی کے نتائج بتاکر ملک کی ترقی ظاہر کرتی ہے۔

پاکستان میں 80 فیصد غریب آدمی آج بھی عزت دار طریقے سے زندگی گزارنے کیلئے جدوجہد کرتا ہے مگر پھر بھی زندگی کو باعزت طریقے سے گزار نہیں پاتا اور محنت مشقت کرتے ہوئے صرف 2 وقت کی روٹی کا ہی سوچنے تک محدود رہتا ہے۔یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ انسانی حقوق نہیں کہ غریب کے پاس ہی پہننے کو کپڑا، رہنے کو چھت ایسی ہو جس سے اسکی زندگی آسان اور خوشحال ہوجائے، غریب آدمی میں شدید گرمیوں میں ایک ایسے کمرے میں رہتا ہے جسے باہر کے ممالک کے لوگ ناقابل رہائش سمجھتے ہیں مگر پاکستان میں ایسے حالات عام آدمی کا مقدر سمجھا جاتا ہے۔ ہماری حکومتوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ آنے والا مستقبل صرف اسی صورت بہتر ہوگا جب پاکستان کی عوام کی ترقی ہوگی، ہماری حکومتیں ہمیشہ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر خوشی ہوتی رہیں جن کی بناء پر معاشی ترقی کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ معیشت کی اصل ترقی وہ ہے جس میں انسان کی طرز زندگی بہتر ہو، ہمارے تعلیمی ادارے، سرکاری اسپتال، لوگوں کے گھر تینوں کا حال یکساں ہے۔

ٹوٹی پھوٹی حالت میں اپنے آپ کو لوگ زندگی کی طرف کھینچ رہے ہیں۔ صرف سانس لینا زندگی نہیں مگر ہمارے ہاں غریب ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس میں وہ رات کو سوتا ہے اور صبح اٹھ کر اپنے زندہ رہنے کیلئے دوبارہ جدوجہد میں لگ جاتا ہے اور خون کے آنسو پیتا رہتا ہے۔خدارا حکومت سے التجا ہے کہ عوام کے بارے میں سوچیں عوام کیلئے ہر وہ سہولت سامان فراہم کریں جس سے ان کی زندگیوں میں بہتری آسکے اس کیلئے حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانا ہونگی کہ کوئی بھی شخص یا تاجر از خود قیمتوں میں اضافہ نہ کرے، یہ اس وقت ممکن ہوگا جب نجی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری ادارے بھی فعال کردار کرسکیں۔کچھ عرصہ سے امید کی کرن نظر آرہی ہے جب سے عوام نے دیکھا کہ پاکستان کی سرحدوں پر اشیاء کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جو کہ پہلے صرف کاغذوں میں ہی نظر آتے تھے۔ اب امید نظر آرہی ہے کہ وہ بڑے لوگ اور مضبوط ہاتھ پاکستان اور عوام کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں اور اب سیاستدانوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر وہ مضبوط ہاتھ چیزوں کو بہتر کرسکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں کرپاتے۔

حکومتی نمائندے عوام کے نمائندے ہوتے ہیں مگر افسوس کہ حکومتی نمائندوں نے ہمیشہ اپنی زندگیاں ہمیشہ اچھی گزاریں اور ان لوگوں کو بھول گئے جنہوں نے انہیں ایوانوں تک پہنچایا، یہ سوچتے ہوئے کہ غریبوں کی آواز کو اسمبلیوں میں اٹھائیں گے اور ان کی تکلیفیں دور کرنے کیلئے قانون بنائیں گے۔سیاسی لیڈروں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے تو ہر دور میں ایوانوں میں آواز اٹھائی گئی ہے لیکن ان کے کارکن ہمیشہ سے شہید ہوتے رہے یا جیلوں میں قید کی اذیتیں اٹھاتے رہے۔ہمارے بچوں کو سیاستدانوں نے ہمیشہ جذباتی کرکے صرف استعمال کیا ہے۔پاکستان اس وقت بدلے گا جب ہمارے پارلیمان میں پارٹیوں کے لیڈرز کے مسائل پر بحث کے بجائے عوام مسائل پر غور کیا جائیگا اور اسی صورت میں پاکستان اس ہمیشہ سے پھنسے نازک موڑ سے بھی گزرسکتا ہے۔

حصہ
mm
ندیم مولوی ملک کے معروف ماہر معیشت ہیں،وہ ایم ایم سیکورٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربھی ہیں،ندیم مولوی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔