کھڑکی سے آتی قدرے ٹھنڈی ہوا سے عمر کی آنکھ کھلتی ہے ۔ آج کا موسم تو بہت خوبصورت لگ رہا ہے ۔صبح کے سات بج چکے ہیں مگر ابھی بادلوں کا دل نہیں ہے کہ وہ سورج کو نکلنے دیں۔ عمر کے کمرے کی کھڑکی سے باہر مورینگا کے درخت کی اپری شاخیں نومبر کی خوبصورت صبح کی بادصبا میں رقص کررہی ہیں جن پہ بیٹھی تین چڑیاں مزے سے جھول رہی ہیں ۔ ایک منٹ تک عمر اپنے بیڈ پر لیٹے ہوئے یہ منظر دیکھتا رہتا ہے جیسے اسکا دل ہی نہیں بھر رہا ہو اس خوابیدہ سی صبح کے نظارے سے مگر ساتھ ہی کچن سے تازہ تازہ ڈبل روٹی کے بیک ہونے کی خوشبو اسے بیڈ سے اٹھنے اور نئے دن کے آغاز کے لیے مجبور کر دیتی ہے ۔ مسز کامران اپنے گھر سے بیکری کا بزنس چلاتی ہیں اور ان کی بیکری کے اکاؤنٹس کا سارا کام ان کا چھوٹا بیٹا عمر دیکھتا ہے ۔ نہ صرف اکاؤنٹس بلکہ مارکیٹنگ اور سوشل میڈیا پیجز سنبھالنے کی ذمہداری بھی اسی کی ہے۔ ہر روز صبح ہوتے ہی مسز کامران کا گھر مزےدار خوشبوؤں سے مہکنے لگتاہے ،sourdough bread،Milk bread، French baguette اور نہ جانے کون کون سی اقسام
مگر عمر کو تو french baguette کے ساتھ پنیر اور سبزی کے سینڈوچز کے علاوہ اور کوئی ناشتہ پسند نہیں۔اپنی پسندیدہ چائے اور ناشتے کے بعد وہ لیپ ٹاپ پر اپنا کام شروع کر دیتا ہے کہ کام کرتے کرتے اس کی نظر اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز پر پڑتی ہے اور ایک لمحہ کو اسکا دماغ ماضی کے مشکل سفر کی طرف چلا جاتا ہے ۔۔۔۔
عمر تھلیسیمیا میجر کا مریض ہے یہ بات کامران فیملی کو اس وقت پتا لگی جب عمر چار سال کا تھا۔ ڈاکٹروں کے بتانے پر پہلے تو کامران صاحب اور انکی بیگم کو اس بات پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا ۔ عمر تین بیٹیوں کے بعد پہلا بیٹا تھا اور اسکی پیدائش پر دونوں نے بہت سے خواب دیکھے تھے ۔ مسز کامران نے اسکے لئے عمر نام بھی اسی لیے پسند کیا تھا کہ وہ صحابی رسول حضرت عمر کی طرح اک بہادر انسان بنے، مگر انہیں تو لگ رہا تھا کہ جیسے انکے سارے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں ۔ تھلیسیمیا کی وجہ سے عمر کبھی نارمل زندگی نہیں گزار پائے گا۔ اسے ہر مہینے یا بیس دن یا پندرہ دن میں کسی دوسرے انسان کے خون کی ضرورت پڑے گی۔ وہ حساس ہوگا مختلف انفیکشنز سے ، اسکی ہڈیاں کمزور ہونگی اور وہ نشوونما اور صحت میں دوسرے بچوں سے پیچھے ہوگا۔اور شاید اسکی زندگی بھی مختصر ہو۔ رشتے داروں اور جاننے والوں کی ہمدردی میں لپٹی چبھتی باتوں نے جسے کامران صاحب اور مسز کامران کی کمر ہی توڑ ڈالی۔ مگر ماں کی ممتا کا کیا کہ جو معجزوں پر یقین رکھتی ہے ،جو اپنے اولاد کے لئے دیکھے گئے خوابوں کو ٹوٹنے نہیں دیتی۔ مسز کامران چھوٹے سے عمر کو محبت کے ساتھ اپنے گلے لگاتی ہیں اور اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے دل میں یہ عہد کرتی ہیں کہ وہ عمر کو ایک فائٹر بنائیں گیں۔
عمر کو تقریباً ہر بیس دن میں خون کے ٹرانسفیوژن کی ضرورت پڑتی جس میں ڈاکٹر اس بات کا خاص خیال رکھتے اس کے جسم میں آئرن کی مقدار مناسب رہے۔ گو کہ یہ سفر انتہائی کٹھن اور مشکل تھا مگر یہ انسان کا اللہ پر بھروسہ اور اسکی اپنی لگن ہی تو ہے جو اسے اشرف المخلوقات بناتی ہے ۔والدین اور تینوں بہنوں کی بےپناہ محبت اور دیکھ بھال کے ساتھ عمر اپنی زندگی کی منازل طے کرتا جارہا تھا ۔ وہ واقعی میں ایک فائٹر تھا۔ کامران صاحب کی لائبریری سے وہ الکندی اور اقبال کے فلسفے کو پڑھ کر بڑا ہو رہا تھا ۔ وہ الکندی کے اس نظریے کو صحیح سمجھتا تھا کہ سچائی دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک عام ذہن لوگوں کے لئے اور دوسری پڑھے لکھے ،کھلے ذہن کے لوگوں کے لئے ۔ ایک عام انسان اس دنیا اور اس زندگی کی حقیقت کو سطحی طور پر سمجھتے ہیں جبکہ عقل و خرد والے لوگ اس زندگی اور اسکے مقصد اور اپنی تقدیر کو گہرائی سے سمجھتے ہیں اور عقل و محنت اور اللہ پر بھروسہ کے ساتھ اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں اور اپنی قسمت خود بناتے ہیں ۔ اقبال کی خودی بھی اسے یہ ہی سکھاتی تھی ، اپنے اختیار کی معنویت کا احساس دلاتی تھی، خودی اپنی ذات کی تسخیر ہی کا تو نام ہے۔
بےشک اللہ تعالیٰ نے اسے تھلیسیمیا جیسی بیماری کے ساتھ پیدا کیا مگر باحثییت انسان اسے اپنی زندگی کیسے گزارنی ہے، یہ اختیار اس سے نہیں چھینا اور وہ یہ اختیار پوری طرح استعمال کرنا چاہتا تھا ۔ اپنی زندگی کو اپنے انداز میں جینا چاہتا تھا ۔ اسے لوگوں کی ہمدردیاں نہیں چاہیئے تھیں بلکہ وہ تو خود اپنی تقدیر لکھنا چاہتا تھا ۔ سولہ سال کی عمر میں عمر Bone marrow transplant کے مرحلے سے گزرا ۔نہ صرف عمر نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر مظبوط کیا بلکہ جسمانی طور پر بھی اپنی بیماری سے کسی بہادراورہوشیار گلیڈیٹر کی طرح لڑا۔
عمر نے شہر کی بہترین یونیورسٹی سے MBA کی ڈگری لی بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے بہترین مصوری بھی شروع کی ۔ اپنی ماں کے ہوم بیکری چلانے کے خواب کو پورا کرنے میں انکی مدد کی۔ عمر تھلیسیمیا سے متاثر بچوں کی کمیونٹی سے بھی منسلک ہوا اور معاشرے میں اس مرض سے آگاہی کے لے مختلف پروگراموں کا انعقاد بھی کیا۔ آج عمر تھلیسیمیا سے متاثر خاندانوں کے لئے ایک موٹیویشنل سلیبرٹی کی سی حیثیت اختیار کرگیا تھا
سمجھتا ہے تُو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت، حضَر ہے مجاز
اپنی پینٹنگز کو دیکھتے ہوئے عمر یہ سوچ رہا تھا کہ یہ زندگی بھی تو اس پینٹنگ کی طرح مختلف رنگوں کا امتزاج ہی تو ہے ۔کچھ گہرے کالے رنگ اور کچھ شوخ و چنچل ، روشن رنگ مگر یہ سب رنگ مل کر ہی ایک خوبصورت تصویر تخلیق کرتے ہیں ۔