فون کی گھنٹی کافی دیر سے بج رہی تھی عموماً احمد صاحب آفس میں غیر متعلقہ نمبر سے آنے والی کال ریسیو نہیں کرتے تھے لیکن مسلسل بجتی گھنٹی نےانہیں فون اٹھانے پر مجبور کر دیا۔فون سنتے ہی ان کی حالت غیر ہونے لگی۔۔پاس بیٹھے ماجد صاحب نے انہیں سہارا دے کر کرسی پر بٹھایا تو انہوں نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پانی مانگا۔ جب اوسان بحال ہوئے تو انہوں نے بتایا ” تھانے سے ایس ایچ او کی کال تھی کہہ رہا تھا ہم نے آپ کے بیٹےکو چار لڑکوں کے ہمراہ ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیا ہے لیکن آپ کا بیٹا تو بڑا ہی معصوم لگ رہا ہے لیجیے اس سے بات کیجئے۔۔۔ پھر اس نے فون میرے بیٹے کو تھما دیا وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا پاپا پلیز مجھے یہاں سے لے جائیں یہ لوگ مجھے بہت مار رہے ہیں پاپا میں بے گناہ ہوں میں نے کچھ نہیں کیا وہ مسلسل رو رہا تھا پھر اس نے کال ختم کر دی ۔
فون پر بیٹے کی آواز سنتے ہی احمد صاحب کے ہوش اڑ گئے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا کریں۔اس سے پہلے کہ ان کی طبیعت مزید خراب ہوتی ان کے دوست نے کہا ارے مت پریشان ہوں آج کل بہت فراڈ ہو رہے ہیں ۔ آپ فوراً اپنے بیٹے سے رابطہ کریں۔
احمد صاحب نے جب کال کی تو ان کے بیٹےنے فون اٹھایا۔۔۔ انہوں نے بے قرار ہو کر پوچھا اسد بیٹا تم کہاں ہو۔۔۔؟ خیریت سے تو ہو نا۔۔۔جی پاپا میں ٹھیک ہوں۔آج گھر پر ہی ہوں طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو یونیورسٹی سے چھٹی کر لی تھی لیکن آپ پریشان کیوں لگ رہے ہیں اس نے فکرمندی سے پوچھا۔نہیں کوئی خاص بات نہیں احمد صاحب نے مطمئن ہوتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔پاپا کچھ دیر پہلے میرے موبائل پر آپ کے کسی دوست کی کال آئی تھی تو میں نے ان کو آپ کا نمبر دے دیا ہے”اسد نے جب انہیں یہ بتایا تو ساری کہانی ان کی سمجھ میں آگئی کہ کس طرح پہلے ان کے بیٹے کو کال کر کے اس کی آواز اور ان کا نمبر حاصل کیا گیا پھر اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے کسی اور کی آواز کو وائس چینجر کے ذریعے ان کے بیٹے کی آواز میں تبدیل کر کے انہیں سنایا گیا تاکہ وہ بھاگتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے مطلوبہ مقام پر پہنچیں تو انہیں اغوا کر لیا جائے اور پھر گھر والوں سے تاوان وصول کیا جائے۔ وہ تو بھلا ہو احمد صاحب کے دوست کا جنہوں نے گھر فون کرنے کا مشورہ دیا اور وہ کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے سے بچ گئے۔
گھر پہنچ کر جب انہوں نے سارا ماجرہ سنایا تو ان کی بیگم بھی پریشان ہو گئیں بیٹا جو کہ انجینئرنگ کا طالب علم تھا کہنے لگا “ارے پاپا یہ اکیسویں صدی ہےہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں جہاں اب ہر طرف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا راج ہوگا ۔بیسویں صدی کی ایجادات اب پرانی اور متروک ہوتی جارہی ہیں ان کی جگہ جدید اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز لے رہی ہیں ،آج سے 50 سال پہلے جو چیزیں ناممکن تھیں وہ سب اب ایک کلک پر ممکن ہیں ۔ ایسی ایسی مشینیں بھی ایجاد ہو چکی ہیں جو انسان کے سچ اور جھوٹ کو جانچ لیتی ہیں۔ اب کسی کی بھی آواز کو کسی دوسرے شخص کی آواز میں کنورٹ کرنا یا فیک ویڈیو بنانا کچھ بھی مشکل نہیں۔
احمد صاحب اور ان کی بیگم حیرت سے منہ کھولے بیٹے کی باتیں سنتے رہے۔ہمارے پردادا نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ چار مختلف ممالک کے رہنے والے افراد ایک ہی وقت میں ویڈیو لنک کے ذریعے ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں یا آن لائن کلاس لے سکتےہیں۔۔۔اسد کی امی کہنے لگی ہاں بیٹا ترقی کا سفر تو ہر لمحے جاری ہے۔اب وہ دور گیا جب لمبی لمبی لائنیں لگا کر ہم بل جمع کیا کرتے تھے اب تو بس ایک کلک پہ آن لائن بینکنگ کے ذریعے سارے بلز جمع ہو جاتے ہیں ،گھر بیٹھے خریداری ہو جاتی ہے، ۔۔۔جی ہاں امی جان اس کے علاوہ ایسی ایسی پروگرامنگز متعارف کروا دی گئی ہیں کہ ہم کہیں بھی ہوں وہاں سے اپنے گھر کا دروازہ ،فریج ،ٹی وی سب آپریٹ کر سکتے ہیں۔۔ہر روز ایک نئی ایجاد پچھلی ایجاد کو پیچھے چھوڑ رہی ہے اب تو سائنس دان میٹاورس (imaginary world)بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جہاں پہ ہر انسان کے ایواٹار کو ٹرینڈ کیا جائے گا ۔وہ اپنی اس دنیا میں اپنی مرضی سے آزادی کے ساتھ ہر وہ کام کر پائے گا جو اس دنیا میں نہیں کرسکتا اسے وہاں کبھی موت نہیں آئے گی۔
احمد صاحب کےذہن سے اب تک صبح کا واقعہ محو نہیں ہوا تھا بیٹے کی زبانی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب کی باتیں سن کر کہنے لگے بیٹا! لگتا ہے وہ دور آ ہی گیا ہے جس کے لئے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی