احساس محرومی کیوں؟‎

ہم اکثر اپنے رویوں سے، الفاظ سے دوسرے کو شدید احساس محرومی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ!آزمائش کی اس دنیا میں ہر انسان کو ہر نعمت سے نہیں نوازا گیا، لازمی طور پر اسے پرکھنے کے لئے اگر چند نعمتیں وافر دی گئیں تو کسی نعمت سے اسے آزمایا جانا فطرت کا اصول ہے امتحان گاہ کا تقاضا ہے۔ تعلق باللہ کی بنیاد بھی یہی ہے اور نا شکری کی راہ بھی کم ظرف کے لئے یہی وا کرتی ہے.

کیا ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو نہیں جس نے کالے اور گورے، امیر اور غریب کی تخصیص ختم کر کے محمود و ایاز کو ایک صف میں لا کھڑا کیا تھا، کیا مال اور اولاد کے ذریعے آزمانا ایک فطری حقیقت نہیں؟

آخر، ہم کیوں کالے، گورے میں امتیاز کر کے دوسروں کو احساس محرومی میں مبتلا کرتے ہیں، ہم کم نمبر، زیادہ نمبر کے تقابلی جائزے میں اپنی توانائیاں کیوں کھپا رہے ہیں، شادی کے سال، دو سال تک اولاد کی امید نہ بندھے تو ہم بحیثیت مجموعی متعلقہ فریق کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیتے ہیں، بیٹا نہ ہو تو بیٹیوں کو منفی احساس دلا کر بھائی کے حوالے سے شدید احساس محرومی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

نعمت کی خواہش کرنا غلط نہیں مگر اللہ کی بے شمار نعمتوں کی عطاء پر عاجزی اختیار کرنے کی بجائے اس نعمت کا شکوہ کرتے رہنا جو عطا نہیں کی گئی بہرحال نا شکری یے اور ایسا ہی ہے جیسے ہم ایگزامینر سے یہ توقع رکھیں کہ وہ ہمیں ہماری پسند کا پرچہ ہی دے گا۔

بے شک کوئی دین سے، کوئی مال سے، کوئی اولاد سے، کوئی صحت سے، کوئی رشتوں سے آزمایا جا رہا ہے، زرا انصاف سے کہیے، کیا اہمیت اور مقام و رتبہ صرف پھل دار درختوں کا ہے۔

اگر کوئی ہمیں ہماری کسی محرومی کا احساس دلاتا ہے۔. خواہ وہ جسمانی محرومی ہو یا اور کسی نعمت سے محرومی ہو،، تو ہر گز خود پر شرمندگی طاری نہ ہونے دیجئے، پر اعتماد رہیئے اور دو ٹوک جواب دیجئے،،اگر کوئی اولاد کے حوالے سے ہریشان کن سوال کرے تو اعتماد سے کہئے کہ، بھائی یہ اللہ کے ذمے ہے، آپ فکر چھوڑ دیں اللہ ہمارے لئے کافی ہے.کسی بیٹیوں والے کو کوئی بیٹے یا بھائی کے حوالے سے پریشان کرے تو اسے تسلی دلائیے، کہ بھیا،اللہ کے اختیار میں ہے، بیٹیاں دے یا بیٹے، ملا جلا کر دے یا جھولی خالی رکھے آپ ہماری فکر کر کے اپنے بال سفید نہ کیجئے۔

یقین جانیں آپ کا توکل علی اللہ مضبوط ہے تو کوئی مخلوق آپ کو ٹینشن، ڈپریشن کا مستقل مریض نہیں بنا سکتی، ہاں اگر آپ بجائے خود، خود ترسی کا شکار ہیں تو خدارا اپنے حال پر رحم کیجئے… پریشان تب ہوں جب آپ اولاد کی یا کسی بھی نعمت کی بے قدری کر رہے ہوں، پریشان تب ہوں جب آپ کے بیٹے اخلاقی برائیوں میں مبتلاء ہوں ورنہ عطائے خداوندی پر شکر گزار رہیئے، اس کی رضا میں راضی رہیں… نہ خود پریشان ہوں نہ اس اس گروہ کا حصہ بنیں جو لوگوں کو مایوسی میں دھکیل دیتا ہے۔