لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟

اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔

دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔

 کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔

خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا اچھا بیٹا تم پریشان نہ ہو تمہارے چاچو ڈبل روٹی جیم لے آئے ہیں ناشتہ کرلو پھر میں آج دوپہر میں دال چاول بنادوں گی۔ آج تو آپکو دریائے راوی کی سیر کروانی ہے راوی کی سیر سے لطف اندوز ہوکر دو اور مقامات پر گئے۔

صاف اور کشادہ سڑکیں انڈر پاسز پل وغیرہ لاہور شہر کی اتنی اچھی حالت دیکھ کر اس نے سوچا میرا شہر کراچی پورے ملک کو سب سے زیادہ ریوینیو دیتا ہے، وہاں نہ صفائی ہے نہ مینٹینس ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں غیر معیاری خستہ حال پل پاکستان کے دو بڑے شہروں صوبائی دارالحکومتوں میں اتنا فرق کیوں؟ سوچتے سوچتے آخر کار اسے ساری بات سمجھ آگئی کہ کرپشن میں بدنام سندھ حکومت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی ملی بھگت سے سالہا سال سے صوبے میں سو فیصد کرپشن جارہی ہے ترقیاتی کام نہیں کیے گئے ہیں، جسکے نتیجے میں نہ صرف کراچی بلکہ اندرون سندھ بھی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کراچی کی بربادی کی ذمہ دار یہی دو کرپٹ حکومتی پارٹیاں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پنجاب حکومت نے صوبے سے ساٹھ ستر فیصد کھایا باقی صوبے کی ترقی بالخصوص لاہور میں لگا دیا۔

کراچی کی حالت بدل سکتی ہے، ہمارے سامنے مثال موجود ہےکہ کراچی کی شہری حکومت میں جن یوسیز میں الخدمت جماعت اسلامی پینل کے پاس انتظامی امور کی ذمہ داری موجود ہے وہاں ان لوگوں نے سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے کام شروع کر رکھا ہے ہے۔ بلکہ اپنے اختیارات اور وسائل سے ذیادہ کام کرتے ہوئے سڑکوں کی استر کاری کر رہے ہیں اور پارکوں کھیل کے میدانوں سے کچرا کنڈی کا خاتمہ کرکے ان کو بحال کیا ہے۔ اور جن یوسیز میں پی پی موجود ہے مکمل اختیارات اور وسائل ہونے کے باوجود ان علاقوں کی حالت زار انتہائی مخدوش ہے۔

مشہور بات ہے ہمیشہ یہی کہا جاتا تھا اور اب بھی کہاجاتا ہےکہ لاہور لاہور ہے اورکراچی تو روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کہلاتا تھا  ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ لاہور تو اب بھی لاہور ہی ہے لیکن کراچی اندھیروں میں ڈوبا ٹوٹ پھوٹ کا شکار گندگی اور جرائم کی لپیٹ میں ہے، ذمہ دار کون ہے؟ آپ ہی فیصلہ کریں۔