پرویز مشرف کے دور حکومت میں شروع ہونے والا کچھی کینال پراجیکٹ 2002ء ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے بلوچستان کی تقدیر بدل جانے کی امیدیں وابستہ کی گئیں اور اس منصوبے کو بلوچستان کیلئے سبز انقلاب کہاگیا۔ اس منصوبہ کے مطابق500 کلومیٹر طویل کینال میں سے تقریبا 300 کلو میڑ کینال پختہ جبکہ 200کلو میٹرکچی کینال ڈیزائن کی گئی جس کو تین مرحلوں میں مکمل کیا جانا طے پایا۔
اکتوبر 2002ء میں تونسہ کے مقام پر منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔جس کے لیے قومی اقتصادی کونسل نے 2003ء میں فنڈز کی منظوری دی۔ یہ منصوبہ پلان کے مطابق2007ء میں پورا ہونا تھالیکن فنڈز کی کمی اور دیگر تنازعات کی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا گیا۔2002ء میں جس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیااس کے پہلے فیزکا افتتاح 2017ء میں ہوا۔پہلے فیز میں363کلومیٹر لمبی نہر صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں واقع تونسہ بیراج سے لیکر صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی تک تعمیر کی گئی۔6000 کیوسک پانی کی گنجائش والی اس نہر کی تعمیرسے 72,000 ایکڑ بنجر اراضی سیراب ہوئی اور 20لاکھ کے قریب لوگوں کو پینے کا پانی میسر آیا۔
اس منصوبے سے بلوچستان کے تین اضلاع میں فصلوں کی کاشت چار فیصد سے بڑھ کر اسی فیصد تک جا پہنچتی اور ایک اندازے کے مطابق زرعی شعبے میں سالانہ 20 ارب روپے تک آمدن میں اضافہ ہوا۔ منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف بلوچستان کے غریب عوام کی زمینوں کی قیمت میں اضافہ ہوا بلکہ ان علاقوں سے غربت اور بے روزگاری تقریباََ ختم ہوتی نظرآئی۔ غریب بلوچوں کو اپنے گھروں میں باعزت روزگار میسر آیا اور مختلف زرعی اجناس کی برآمد سے نہ صرف بلوچستان معاشی طور پر مستحکم ہوابلکہ بلوچستان کی زمین سے اگنے والی فصل کا ہر دانہ پاکستان کی جی ڈی پی میں اضافے کا باعث بنا۔
کچھی کینال پراجیکٹ کے پہلے فیز کی تکمیل اور اس کے ثمرات کو دیکھتے ہوئے باقی فیزز پر بھی تعمیراتی کام ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔پہلے فیزز کے بعد ابھی دو سرے فیز پر کام چل ہی رہا تھا کہ 2022ء کے تباہ کن سیلاب نے فیز ون میں مکمل کینال پراجیکٹ کو بری طرح متاثر کیاجس سے بلوچستان کے علاقوں میں پانی کی ترسیل معطل ہوگئی۔ 2022ء کاسیلاب آیا اور گزر گیا لیکن آج دو سال گزرنے کے بعد بھی کچھی کینال کو فعال نہیں بنایا گیااور یوں بلوچستان کی ترقی کا سفر رُکا ہوا ہے۔کچھی کینال کی بندش سے متاثرہ علاقوں کی عوام پینے کے پانی سے محروم اور نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اور عوام سراپا احتجاج ہیں اور ان کا سیلاب سے متاثرہ کچھی کینال کے پہلے فیز کی بحالی اور باقی فیزز پرکام مکمل کروانے کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں تاکہ متاثرہ علاقوں میں زرعی پیداوار دوبارہ ممکن ہو اور زراعت کے شعبے سے وابستہ خاندان معاشی بدحالی اور نقل مقانی سے بچ سکیں۔
کچھی کینال کی فوری فعالیت و بحالی کیلئے بلوچستان اور وفاقی حکومت کے درمیان مشاورتی اجلاس منعقد ہوئے اور طے پایا کہ کے سیلاب سے متاثرہ کینال کی فوری جزوی بحالی کے منصوبہ کیلئے واپڈا (WAPDA)سے اخراجات کا تخمینہ لگوایا جائے تاکہ کینال کی مرمت اور بحالی کیلئے فنڈ جاری کیے جاسکیں۔
سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) نے اس منصوبہ کو تھرڈ پارٹی توثیق سے مشروط کیا تھا۔ واپڈا کی جانب سے تیار کی گئی دستاویزات میں کینال کی جزوی بحالی کے منصوبے کے اخراجات کا تخمینہ4.7 1ارب روپے لگایا گیا۔ دستاویز کے مطابق 14.7 ارب روپے کے منصوبہ میں سے 10.6 ارب روپے تعمیر کی لاگت تھی۔وزارت منصوبہ بندی نے واپڈا کی سمری تھرڈ پارٹی کو فارورڈ کی تو انکشاف ہوا کہ تعمیر نو کی لاگت 4.1ارب روپے سے زیادہ نہیں ہے اور تخمینے میں 6.5 ارب روپے کی رقم اضافی ظاہر کی گئی ہے جوکہ اصل لاگت کا 158فیصد بنتی ہے۔لاگت میں غیر ضروری اضافہ کی وجہ سے کینال کی بحالی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑگیاہے اور بلوچستان کی عوام کو پانی کی فراہمی کامنصوبہ ایک بار پھر لٹک گیا ہے جبکہ بوند بوند کو ترستے اور نقل مکانی پر مجبور شہریوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے ۔
اس سارے معاملہ میں حیران کن بات یہ ہے کہ تھرڈ پارٹی جائزے نے کام کے لیے واپڈا کے بیان کردہ قیمتوں کے کام کو تبدیل نہیں کیا ہے اور پھر بھی لاگت میں 6.5 ارب روپے کا فرق ظاہر ہو رہا ہے۔مطلب یہ کہ زمین کو بھرنے کے مواد اور پشتوں کومضبوط کرنے کے لیے واپڈا نے 2.1 ارب روپے کی قیمت بتائی جو تھرڈ پارٹی کے مطابق صرف 91.3 کروڑ روپے ہونا چاہیے۔ اس طرح ایک ہی کام میں 1.1 ارب روپے کا فرق نکل آیا ہے۔قومی ادارے کے افسران کی جانب سے لاگت بڑھانے اور بڑے پیمانے پرگڑبڑ پرفی الحال کوئی ایکشن تو نظرنہیں آیا ۔ ایک بار اس معاملہ پر خاموشی اختیار کرلی گئی ہے جو کہ بد عنوانی کو تقویت فراہم کرنے جیسا عمل ہے۔اس معاملہ پر وفاقی حکومت کو چاہیے کہ مکمل تحقیق کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف ہر ممکنہ قانونی کاروائی عمل میں لائے تاکہ عوام کے پیسے کو بدعنوانی کی نظر کرنے والوں کی سزا دی جاسکے اور کم سے کم لاگت میں اس منصوبہ کو مکمل کرکے بلوچستان کی بنجر ہوتی زمینوں کو شادوآباد کیا جائے۔