لفظ جب لہو روئیں، آنکھ میں سمندر ہو
سَرپہ بے نظیروں کے، جب کوئی نہ چادر ہو
پھول جل رہے ہیں جب، گھر گلی میں ماتم ہو
آسماں بھی برہم ہو، زندگی جہنم ہو
مفلسوں کے آنگن میں، بھوک رورہی ہو جب
دن کی روشنی میں بھی، رات ہوگئی ہو جب
رنگ میں بھی شبنم کے، خون ہو گلابوں پر
ماس ہو جھلستا جب، بوجھ ہو فضائوں پر
موت بھی جو ڈر جائے، ظلم وبربریت سے
خوف ہوفضائوں میں، رنگ آدمیت سے
خون ہو رہا ہو جب، بے گناہ فقیروں کا
اُڑگیا ہو چہروں سے، رنگ بے نظیروں کا
گل بدن سے جسموں کا، رنگ رات ہوجائے
ماں کی گود میں جگنو، روشنی بھی کھوجائے
خوف سے وہ رونا بھی، بھول ہی گیا ہو جب
ماں کے سرد لاشے کو، لعل دیکھتا ہو جب
گھن گرج دھماکوں کی، سنسنائے گولی بھی
گھر گلی میں سڑکوں پر، خون کی ہوہولی بھی
موت ہو فقیروں کی، عید ہو امیروں کی
دشمنوں کے نرغے میں، فوج ہو وزیروں کی
دیکھتاہومنصف بھی، سورہا ہوقاضی جب
مومنوں کا قائد بھی، بھول جائے ماضی جب
سرحدوں پہ دشمن کے، شورہورہا ہو جب
بے ضمیرلوگوں کا، زور ہورہا ہوجب
بے خبر ہو ملت سے، فکر بے ضمیروں کی
ذہن پر حکومت ہو، مغربی یزیدوں کی
کھلکھلائیں جگنو اور، تتلیاں ہوں آنگن میں
بم پھٹے کھلونے میں ، کچھ رہے نہ دامن میں
جی سکے گا کیا کوئی، موت کی سگائی میں
ہر کوئی خدا ہو جب، ایک ہی خدائی میں
پوچھ لو اگر مجھ سے، کس طرف اشارہ ہے
سر جھکا کے کہہ دوں گا، وہ وطن ہمارا ہے
گھر کے بے ضمیروں کے، ہاتھ مررہا ہوں میں
پاک سوہنی دھرتی کا، ذکر کر رہا ہوں میں