دو تولے کی زبان

ڈاکٹر ذاکر نائک پاکستان کیوں کو مدعو کئے گئے تھے؟ یہ ایسا سوالِ نا سوال ہے جس کا جواب شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ ایک ایسا شخص جو اس موجودہ دور کا ایک حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک انسان ہے اور جس کا حافظہ کسی بھی تیز رفتا کمپیوٹر سے کہیں زیادہ تیز رفتار ہے۔ جو قرآن ہی کا نہیں دنیا کے بہت تمام مذاہب کی کتابوں کو اپنے دل و دماغ میں اس طرح اتار چکا ہے کہ جب بھی اس کا ذہن کسی بھی کتاب کو کھولتا ہے تو کتاب کے صفحے کی ایک ایک سطر اس کی نظروں کے سامنے ایسے کھل کر سامنے آجاتی ہے جیسی کوئی حقیقی کتاب اس کے سامنے رکھی ہوئی ہو۔ پھر یہی نہیں بلکہ ہر بدلتے ہوئے حوالوں کے ساتھ کتابوں کے اوراق در اوراق اس کی نظروں کے سامنے اس تیزی کے ساتھ کھل اور بند ہو رہے ہوتے ہیں کہ کمپیوٹر بھی ہاتھ پاؤں جوڑنے لگتا ہے کہ یہ کون مجھ سے بڑھ کر آگیا۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو شخص بھی دو الفاظ دین کے کیا پڑھ لیتا ہے، فوراً اپنا ایک حلقۂ احباب بنانا شروع کر دیتا ہے۔ پھر وہ حلقۂ احباب بڑھتے بڑھتے ایک جماعت کا روپ دھار لیتا ہے اور پھر وہی جماعت ایک فرقے سے بھی کہیں زیادہ بڑی اور مضبوط بن کر دنیا کے سامنے اپنا پیغام اس طرح پیش کرنا شروع کر تی ہے جیسے دو جہاں کی بھلائی ان کے ساتھ شمولیت میں ہے اور وہی ایسے راستوں کی رہبر ہے جو جنت میں لے کر جائے گی اور باقی تمام جماعتیں سراسر گمرہی کی دعوت دینے کے علاوہ اور کسی مہم پر پیش قدمیاں نہیں کر رہی۔ ایسے عالم میں ایک ایسا شخص جس کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کا شمار مشکل ہے، اس سے متاثر ہو کر اس کو صرف سننے کیلئے لاکھوں مسلم و غیر مسلم شمع کے پروانوں کی طرح جل مرنے کیلئے جمع ہو جاتے ہیں، اس نے آج تک نہ تو کسی سے یہ کہا کہ میری ہی باتیں ماننے میں فلاح ہے اور نہ ہی اس بات کا اظہار کیا کہ آؤ میں ایک بڑی جماعت بنانے لگا ہوں اور جن جن افراد نے میرے سمجھانے پر اسلام قبول کیا ہے اور جو مسلمان میری باتوں میں حقانیت محسوس کرتے ہیں وہ سب میری جماعت کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو میں ان سب کو پل صراط سے کامیابی کے ساتھ گزار کر جنت کے اندر داخل کر دونگا۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کا پاکستان میں بلائے جانے کا کیا ذکر ہوا کہ ہر جانب سے ایسی ایسی باتیں سامنے آنے لگیں جیسے یہاں کے فرقہ پرستوں، اسلام کے نام لیواؤں، وہ لوگ جن کے نام کے علاوہ کوئی عمل بھی ”اسلامی“ نہیں، انہوں نے بھی اپنا اپنا زہر اس طرح اگلنا شروع کردیا جیسے ذاکر نائک نے ان سب کی بھینسیں یا مرغیاں چرائی ہوئی ہوں۔

اول تو جو بات میری سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ جنہوں نے بھی ان کو مدعو کیا تھا ان کا مقصد کیا تھا۔ کیا پاکستان کا اصل چہرہ دکھانا کہ دیکھو یہاں قدم قدم پر خطرات منڈلارہے ہوتے ہیں۔ سرِ عام گھومنا پھرنا یہاں سب سے بڑا جرم ہے۔ یہاں قدم قدم پر جنونیوں کا ہجوم ہے۔ پورا معاشرہ اتنے جنونی فرقہ پرستوں میں گھر چکا ہے کہ وہ کسی بھی دوسری قسم کی بات سن کر ان کا خون پینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مجھے کوئی ایمانداری سے بتائے کہ کیا ذاکر نائک اس تا ثر کے علاوہ بھی کوئی اور تاثر لئے یہاں سے گئے ہونگے۔ وہ شخص جس کی باتیں سن کر کافر اسلام قبول کر لیتے ہوں، وہ یہاں پر ”مسلمانوں“ کے درمیان ذہنی الجھنوں کے علاوہ اور کیا لے کے لوٹا ہوگا۔

کسی نے اعتراض ان کے پینٹ، کوٹ اور ٹائی پر کیا۔ کیا اس پر اعتراض کرنے والوں نے ”اسلامی لباس“ کا کوئی نمونہ بھی پیش کیا۔ اسلامی تعلیمات میں تو شرط صرف ستر کو چھپانے کی ہے، لباس کی تراش خراش کا کہاں ذکر ہے۔ ستر تو ”ٹاٹ“ سے، چادروں سے، یہاں تک کہ درختوں کے پتوں تک سے اگر ڈھانپ لی جائے تو ستر کی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ اگر اس بات کو بھی سامنے رکھ لیا جائے کہ ایسا لباس جو کسی اور مذہب یا غیر اسلامی تہذیب والوں کا ہو، وہ بھی پسند نہیں کیا گیا تب بھی پینٹ کوٹ کیا فی زمانہ کسی خاص قوم کا لباس ہے؟۔ اب تو دنیا کے ہر ملک کا ہر شہری یہی زیب تن کئے نظر آتا ہے۔

اعتراض اٹھانے والے زیادہ تر وہ ہیں جو شلوار قمیض کے دلدادہ ہیں۔ کیا یہ لباس اسلامی تھا۔ یہ تو ایران سے آیا تھا جو اس وقت سخت کافر ہوا کرتے تھے۔ کرتا پجامہ ہندوؤں کا لباس ہے۔ پگڑیاں، لاچے، کھسے سب کے سب ”سکھوں“ کے لباس کا جزوِ لاینفک ہیں۔ اور اگر گستاخی پر جان کی امان مل جائے تو عرض ہے کہ ”کتورا“ اور چوخانوں کے رومال کے ساتھ ”کلاوہ“ عربوں کا لباس تھا اور ہے اور اس وقت کے ہر مذاہب کے لوگ اسی لباس کو زیب تن کئے ہوئے ہوتے تھے۔ کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پسند تھا اس لئے اسے اس وقت کے مسلمانوں نے بھی اپنا لیا۔ کیا آج کل کے تمام مسلمان اسی لباس کو اپنے زیب تن کرتے ہیں یا پھر اپنے اپنے علاقائی لباس کو پہننا زیادہ اچھا سمجھتے ہیں۔

یہ ساری باتیں نہ صرف تنگ نظری کی جانب اشارہ کرتی ہیں بلکہ اس جانب بھی اشارہ کرتی نظر آتی ہیں کہ ہم کسی کو بھی اپنے سے بڑا ماننے کیلئے اور اس سے کچھ سیکھنے کیلئے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں بلکہ جو بھی ہم سے سوا ہمیں نظر آئے گا ہم اس کو ہر ہر مقام پر نیچا دکھانے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔ بس ہمیں ذاکر نائک کو پاکستان بلا کر ان کو نیچا دکھانے شوق تھا جو ہم نے کامیابی کے ساتھ پورا کر لیا۔ رہا پاکستان میں سکیو رٹی کا مسئلہ تو امامین و حرم و شریفین یہاں آکر کھلے میدانوں میں لاکھوں لوگوں کی امامت کر کے جاتے رہے ہیں لیکن نہ تو کہیں سے کوئی کنکر پھینکا گیا اور نہ ہی گولی چلائی گئی۔ ادارے چاہیں تو لاکھوں کا ہجوم درخت کا پتہ بھی نہیں توڑتا اور نہ چاہیں توآ ٹھ دس افراد بھی شاہراہیں بلاک کر کے لوگوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ دوتولے کی زبان کا کیا ہے، جب چاہے کھربوں روپے کے بندے کو دو کوڑی کا کرکے رکھ دیتی اور دو ٹکے والے کو سونے کے مول بیچ دیتی ہے۔ یہی حال سکیورٹی کا ہے کہیں لاکھوں بھی درجن بھر اور کہیں درجن بھر بھی لاکھوں سے زیادہ خطرناک۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔