ٹوٹے،بکھرے گھر

آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔

“ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی”

” جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے” ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔

“ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو” جنید نے طنزیہ انداز میں کہا

“نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی” ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا

“ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا ” جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے

اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے

ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،

ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔

ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔

شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔

مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔

شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔

آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔

ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں میں سے گزر کر بناتے ہیں اپنا آشیانہ ، کئی سالوں سے دھوپ ، گرمی آندھی طوفان سے اپنے گھونسلے کو بچاتے ہیں اور جب چند لمحوں کا طوفان سالوں سے بنائے گھونسلے کو بکھیر کر رکھ دے تو ان پر کیا گزرتی ہے ۔۔۔۔۔۔

ندا آج دلہن کے روپ میں بے حد حسین لگ رہی تھی، اس کی امی آج خوشی سے پھولی نہیں سمارہی تھی ، آج ان کی لاڈلی بیٹی جو رخصت ہونے والی تھی۔۔۔۔ آج ان کا دل اداس ضرور تھا پر مطمئن بھی تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو گھر ، گھرداری کے ساتھ سسرال میں رہنے کے گر بھی سکھادئیے تھے ۔ سسرال میں سب سے اچھے اخلاق سے پیش آنا ،سب کا خیال رکھنا ،سب کا احساس کرنا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

ندا بھی بہت سمجھدار تھی اس نے سسرال میں قدم رکھتے ہی اپنی امی کی نصیحتوں پر عمل شروع کردیا ۔۔۔۔۔۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتی کہ سب کی ضرورتوں کا خیال رکھے مگر بد قسمتی سے اس کے سسرال میں کوئی ایسا نہ تھا جو اس کے جذبوں کی قدر کرسکے۔۔۔۔۔۔۔سب کا اچھی طرح خیال رکھنے کے باوجود اسے صبح شام طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ۔۔۔۔۔ اسے بات بات پر طعنے سننے کو ملتے ۔۔۔۔۔۔مگر ندا نے کبھی اپنے والدین کی تربیت پر حرف آنے نہ دیا اور خاموشی اور صبر کے ساتھ ہر طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ ایسا کیا کرے کہ سب کو مطمئن کرسکے مگر ایسا کچھ نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔ اس کے بے انتہا محبت سے پیش آنے کے باوجود ہر کوئی اس کا دشمن بنا بیٹھا تھا۔۔۔۔اس نے تو سسرال کو اپنا گھر سمجھا تھا مگر اسے اپنا آپ اجنبی سا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں اسطرح کے معاملات ایک عام بات ہے ، مگر ان کی وجہ سے جو دلوں پر زخم لگتے ہیں ان کے گھاؤ بہت گہرے ہوتے ہیں ، ارمانوں کا جو خون ہوتا وہ کسی صورت صاف نہیں ہوتا ،

معاشرے کی سطح پہ دیکھا جائے تو کبھی ایک فریق قصوروار ہوتا ہے کبھی دوسرا ۔۔۔۔ ہر گھر کی کہانی ایک جیسی نہیں ہوتی ۔۔۔۔

معاملہ چاہے کوئی بھی ہو عزت و احترام ،ادب و لحاظ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ،

صبر ، برداشت یہ دو چیزیں ہی گھروں کو قائم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔

ہر لڑکی کو چاہیے کہ جب شادی ہو کر وہ سسرال جاتی ہے تو اس کے شوہر کے لئے سب سے پہلے اس کے والدین ہیں ، دوسرے نمبر پہ اس کے بہن بھائی ، اور پھر اس کا نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر اسی نمبر پر ہنسی خوشی اپنے آپ کو ڈھالے گی تو ایک دن اس کا نمبر پہلا ہوگا۔۔۔۔ ہاں اگر جلد بازی سے باقی رشتوں کو پیچھے دھکیل کر پہلے نمبر پر آنے کی کوشش کی تو پھر اپنی جگہ بھی کھونی پڑ سکتی ہے۔ رشتے ایک کانچ کی مانند ہیں ذرا سی ضرب انھیں کرچی کرچی کر سکتی ہیں۔

دوسری طرف اگر گھر والے آنے والے نئے فرد کو تھوڑا وقت دیں، اس کا بھی اسی طرح خیال رکھے جیسا اپنی بیٹی کا رکھتے ہیں ، اسے بھی وہ عزت و مقام دیں جس کی وہ حقدار ہے۔ اس کے ہر اچھے فعل کی حوصلہ افزائی کریں تو اس کے دل میں بھی سسرال کی عزت بڑھے گی اور اس پر معمولی معمولی باتوں پر گھر ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچ جاتے ہیں۔

گھر ، گرہستی اور گھرانہ

محبت ،خلوص کا ہے آشیانہ