میرا محافظ کون؟

قدیم عربوں کے قصّے سنتی تھی تو ہمیشہ اس سوال نے مجھے الجھایا کہ کوئی اپنی بیٹی کو زندہ درگور کیسے کر سکتا ہے ؟ کیسے ایک جیتے جاگتے وجود کو من مٹی تلے دفن کیا جا سکتا ہے؟ ایسی کیا وجوہات تھیں کہ بیٹی کی پیدائش کا ذکر سنتے ہی انکے چہروں پر ذلّت اُمڈ آتی تھی۔ کیسے اپنی ہی ذات کے ایک حصے سے نفرت ہو سکتی ہے۔ پھر تاریخ کے اگلے حصّے میں آتا ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت دی ، مقام دیا ، پہچان دی۔ جہالت کے اندھیروں سے نکالا روشنی مہیا کی۔

یہ ایک نقطہ تھا جہاں میں ہمیشہ رک جایا کرتی ہوں کہ آخر اسلام نے کیا باور کیا کہ انہی لوگوں نے بیٹی کو ذلت کے بجائے عزت سمجھنا شروع کردیا، وہ جس کی ذات کی کوئی اہمیت نہ تھی اب وہ اظہار کر سکتی ہے، اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہے، وہ انکار کر سکتی ہے، وہ اب باعث احترام ہے ، کیا تھا جس نے مردوں کی نظروں کو جھکا دیا ؟ ہوس احترام میں بدل گئی۔ پتہ ہے وہ کیا تھا؟ وہ خوف خدا تھا، وہ میرے نبی آخر از زمان ﷺ کی تعلیمات تھیں۔ وہ احترم تھا جو وہ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی کو دیا کرتے تھے، اپنی ازواج مطہرات کو دیتے تھے اور وہ اخلاق تھا جس سے وہ عام عورتوں سے پیش آتے تھے۔

وہ آخری خطبہ تھا جس کے الفاظ یہ تھے کہ “عورتوں کے معاملے میں الله سے ڈرو”۔ وہ نیک لوگ تھے ، حق و باطل میں فرق کرنے والے ، وہ ایمان میں سبقت لے جانے والے لوگ تھے۔ انہوں نے نظارہ بدل دیا۔

پھر وقت گزرا، حالات بدلے، سابقین و اولین ہمارے درمیان نہ رہے، تعلیمات ماند پڑنے لگی اور دور حاضر میں ہم دوبارہ قدیم زمانوں میں جانے لگے۔ عورت دوبارہ کٹہرے میں کھڑی کیے جانے لگی، اسکی عزت اب صرف بازاروں میں غیر محفوظ نہیں بلکہ گھر بھی ایک محفوظ جائے پناہ نہیں، نہ وہ ورک پلیسس پر محفوظ ہے نہ تعلیمی اداروں میں اور یہاں تک کہ قبروں میں۔

اب جو ہر دوسرے دن کسی بیٹی، کسی بچی کہ ساتھ زیادتی کی خبریں سنتی ہوں تو لگتا ہے کہ شاید قدیم عرب ٹھیک کیا کرتے تھے، شاید وہ اپنی اور اپنے ارد گرد لوگوں کی ہوس سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ وہ محافظ نہیں بن سکتے، حفاظت نہیں کر سکتے اسی لیے زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔

آج کی عورت اس غیر محفوظ معاشرے میں اپنے محافظوں کو سوالیہ نشان سے دیکھتی ہے، جہاں وہی محافظ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر سڑکوں پر گھسیٹ رہیں ہیں، ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی بجائے جرم کو جسٹیفائی کیا جا رہا ہے جہاں قانون صرف طاقت ور کا ہے، جہاں مجرم ہمیشہ سزا سے بچ کر فرار ہوجائے گا اور نہ جانے کتنی ہی زینب اپنے مجرموں کو انجام تک پہنچتے دیکھنے سے محروم رہیں گی۔

آج کی عورت پر دگنی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے کیونکہ اسے نہ صرف اپنی بیٹیوں کی حفاظت کر کے انہیں مضبوط بنانا ہے بلکہ اپنے بیٹوں کو نہ صرف عورتوں کا احترم سیکھانا ہے بلکہ یہ باور کروانا ہے کہ ہر عورت قابل احترم ہے اور معاشرے کے ہر فرد پر یہ فرض ہے کہ وہ جہاں ظلم دیکھے وہاں آواز اٹھائے تاکہ ہر دوسرے دن یہ سوال نہ پوچھنا پڑے کہ آخر میرا محافظ کون ؟۔