اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور لرزتا لہجہ اس کی نیت کی گواہی دے رہا تھا۔ اس نے جس طرح اپنے ملک کی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف اور فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کی یقیناً رب کے ہاں مقبول ہوئی ہوگی۔ وہ کم از کم 57 اسلامی ممالک کے ان سربراہوں سے بہت بہتر تھا جن کے پاس تیل کے کنویں اور ایٹمی ہتھیار ہونے کے باوجود نہ وہ دل ہے جو یتیم اور بے سہارا بچوں کے دکھ درد کو محسوس کر سکیں اور نہ ہی وہ جرآت اظہار جو کہ عالم کفر کو للکار سکے۔ اس نے تقریر کے دوران کئی مرتبہ اپنے آنسوؤں کو پینے کی کوشش کی جو بار بار آنکھوں سے چھلکنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
جی یہ تذکرہ ہے ایک آئرش وزیر تھامس گولڈ کا جس نے اسمبلی ہال میں کھڑے ہو کر کہا۔۔۔۔” آپ کے پاس جب تصویریں اور ویڈیوز پہنچتی ہیں تو اس میں کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ کس طرح سے لوگ چیخ و پکار کر رہے ہیں؟ کیا آپ کو معصوم بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں؟ اسرائیلی گورنمنٹ لوگوں کو جلا رہی اب تک 15 ہزار بچے اور 35 ہزار مرد اور عورتیں مار دیے گئے۔ یہ سب ناقابل یقین ہے، یہ قتل عام ہے ۔مجھے امید ہے بنجمن نیتن یا ہو جہنم میں جلے گا ، مجھے امید ہے وہ اور اس کے جرنیل اور اس کی حکومت کے افراد کو خدا جہنم کی آگ میں جلائے گا کیونکہ یہ لوگ فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صرف جنگی جرائم ہی نہیں بلکہ ظلم اور دہشت ہے ۔ کہاں ہیں اسرائیل کے لوگ وہ کیوں اپنی حکومت کو اس بات کی اجازت دے رہے ہیں؟ کہاں ہے انسانیت؟ کیا نیتن یاہو اور اسرائیلی حکومت کی نظر میں فلسطینی انسان نہیں ہیں ؟ہم آئرش لوگ انہیں انسان مانتے ہیں وہ ہم جیسے ہی ہیں۔ شرم آنی چاہیے اسرائیل کو جو کچھ وہ کر رہا ہے ۔”
اس تقریر کو سننے کے بعد مجھے سورہ البروج کی وہ آیت یاد آگئی جس کا ترجمہ ہے ۔۔۔ اور جو ظلم وہ اہل ایمان پر کر رہے تھے ان کو سامنے دیکھ رہے تھے ۔ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہوئے تھے جو غالب اور لائق حمد و ثنا ہے۔ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی( ساری) بادشاہت ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے. بے شک جن لوگوں نے مومن عورتوں اور مومن مردوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی ان کو دوزخ کا عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا۔ (سورہ البروج :7…10)۔
آج واقعی 57 اسلامی ممالک کے سربراہان صرف اور صرف مومن بچوں عورتوں، بوڑھوں، جوانوں کے برباد ہونے کاتماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم سب سے ضرور سوال ہوگا کہ جب غزہ جل رہا تھا مومنین کے اوپر آگ کے شعلے برسائے جا رہے تھے تو ہم دیکھنے والوں میں شامل تھے یا مدد کرنے والوں میں۔۔۔۔ مقدور بھر جو کچھ بھی ہم سے ہو سکتا ہے وہ ضرور کرنا چاہیے۔ اپنی اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ جانی، مالی، اخلاقی ہر طرح سے فلسطینیوں کو سپورٹ کرنا چاہیے۔
اب تو بدمست ہاتھی نے آگے بڑھ کر یمن اور لبنان کو بھی جنگ کی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اب بھی امت مسلمہ کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں اس سے پہلے کے ایک ایک کر کے سب کی باری آ جائے۔۔۔۔۔ اگر تمام اسلامی ممالک اپنے اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر متحد ہو جائیں اورآنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کفر کو للکاریں تو بے شک اللہ کی مدد شامل حال ہوگی، لیکن صرف زبانی کلامی دعوؤں سے کچھ نہیں ہوتا جب تک عملی اقدامات نہ کیے جائیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس جنگ میں دامے درمے سخنے اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو وہ اس لشکر کا سپاہی بننے کے لیے تیار کریں جو حضرت امام مہدی کی قیادت میں دجال سے لڑے گا۔ آج کے پرفتن دور میں ماؤں کے کاندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے خدارا اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اپنے بچوں میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دیں۔ آخرت پر ان کا ایمان پختہ کریں۔ جب ان کے دل جذبہ ایمانی سے لبریز ہوں گے تو یقیناً وہ د جالی قوتوں کے سامنے کوہ گراں ثابت ہوں گے۔
فلسطینی بچوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ وہ بے ہوش ہوئے بغیر بھی کس طرح آپریشن کے تکلیف دہ عمل سے گزرتے ہیں (کیونکہ وہاں ادویات اور آلات جراحی کی کمی ہے) یہ صرف اور صرف ان کی ایمانی طاقت ہے جس نے انہیں ہر طرح کے درد و غم سے بے نیاز کر دیا ہے ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے یا تو اپنی سرزمین کو ناپاک لوگوں سے آزاد کرائیں یا پھر صیہونی قوتوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کریں۔