اہوو۔۔ یہ میں کہاں پھنس گیا۔۔۔؟ پرویز سخت الجھن محسوس کر رہا تھا۔ آدھا گھنٹہ پہلے امی نے اسے دہی اور سیب لینے بھیجا تھا باجی اپنے میاں کے ساتھ رات کے کھانے پر آ رہی تھیں۔ ان کا جب بھی نزول ہوتا،، پرویز کو ایسے ہی کاموں کے لیے دوڑا دیا جاتا، کام کرنا اسے برا نہیں لگتا تھا مگر یہ بے وقت اتنی دھوپ میں۔۔۔ ٹھنڈے دہی کا مطالبہ۔۔۔۔
امی نے اس کا موبائل ایک طرف رکھ کر اس کے ہاتھ میں پیسے تھما دئیے… اس نے بیچارگی سے امی کو دیکھا تھا مگر یہ موبائل کا چھینا جانا …. آخری راؤنڈ ہوتا تھا جیسے۔۔ اس کے بعد کسی اپیل کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔۔ حالانکہ گیم جیتے ہوئے ذہین بچے پر آخری لمحوں میں یہ ظلم سراسر دست اندازیء پولیس جرم تھا مگر کیا کیجیے۔
انصاف کا دور کہاں ہے اور پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ۔۔۔ اپیل کا حق کہاں دیتا ہے۔ اس نے بڑی نیکی سوچی کہ چلو انڈے بھی لے لو پرویز ۔۔۔ ہو سکتا ہے کل چھاپہ نہ پڑے۔۔۔ مگر یہاں تو بڑی مصیبت تھی۔۔۔ دائیں بائیں ۔۔۔ آگے پیچھے۔۔۔ دور تک لوگ ہی لوگ تھے۔۔۔ جھنڈے ہی جھنڈے۔۔۔ وہ بھی پہچانتا تھا۔۔۔ یہ جھنڈا فلـــسطین کا تھا… دل سے اسے بھی اسرائیل کے سفاکانہ رویے پر بڑا غصہ تھا.. معصوم بچوں کی تصویریں اور برباد گھروں کی تصویریں اور ویڈیوز وہ بھی بہت شیئر کرتا تھا … مگر اب اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ آدمی چھٹی کے دن ریلی میں پھنس جائے ۔۔۔ اتنی دھوپ۔۔۔ اتنے لوگ۔۔۔ اور وہ بائیک پر، انڈوں کی تھیلی کا ساتھ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور اس نے بائیں طرف دیکھا ایک بڑا ٹرالر چلا آ رہا تھا ۔۔۔ ریلی کے دو تین شرکاء سامنے آ کر اسے نرمی سے روک رہے تھے۔۔ پرویز نے سوچا اب اس کی خیر نہیں جھگڑا شروع ہونے کو ہے، مگر جانے انہوں نے کیا کہا کہ وہ ریلی کو راستہ دینے کو بائیں جانب مڑ گیا ۔۔۔
پرویز با مشکل اپنی بائیک سنبھال کر دائیں جانب نکلنے کی کوشش کرنے لگا، مگر شاید وہ شکل سے اتنا معصوم لگ رہا تھا کہ ریلی کے شرکا کو اپنا اپنا سا لگ رہا تھا ۔۔ وہ بھی بار بار مسکرانے کا ڈرامہ کر رہا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ اب اس کے انڈوں کی خیر نہیں۔۔
پچھلی بار جب وہ ایک سیاسی جماعت کی ریلی کی لپیٹ میں آگیا تھا تو کس طرح ریلی سے نکلنے کی کوشش کرنے پر وہ لوگ سخت برہم ہو گئے تھے اور انہوں نے اس کی بائیک کا اگلا ٹائر زبردستی موڑ کر دوبارہ ریلی میں دھکیل دیا تھا تب بھی ایسے ہی وہ سامان لے کر جا رہا تھا۔۔۔ غصے سے ایک آدمی نے بڑھ کر اس کی سیبوں کی تھیلی پھاڑ دی تھی اور بائیک کو دھکیلنے کے چکر میں اس کے انڈے بھی ٹوٹ گئے تھے ۔۔۔ اس نے غصے سے انڈوں کو دیکھا، یا اللہ مجھے کس نے کہا تھا انہیں خریدنے کی ۔۔۔ یا اللہ ۔۔۔
اس نے اپنے بائیں ہاتھ والی گاڑی کو تیزی سے گزرتے دیکھا ایک پیارا سا بچہ فلـــسطین کا جھنڈا لہرا کر اسے مسکرا کر مسکرا کر دیکھ رہا تھا ۔۔۔ دائیں ہاتھ والی گاڑی سے آواز آئی انکل ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے؟ چلیے نا!! اسرائیل کو مارنے ۔۔۔ پرویز کسی طرح اپنی بائیک دائیں طرف کرنے کی کوشش کر رہا تھا اسی چکر میں اس کی بائیں بائیک ایک جوان کی بائیک سے ٹکرا گئی۔۔۔ یا اللہ اب تو میری خیر نہیں!! مگر یہ کیا وہ نوجوان تو مسکرا کر سرہلاتا آگے بڑھ گیا.. اس کے ساتھ سڑک پر کھڑے لڑکے نے اس کے لیے راستہ بناتے ہوئے مسکرا کر کہا “یار اس طرف سے نکل جاؤ، تمہیں گھر جانا ہے نا…” ہاں… ہاں! پرویز نے فورا کہا شاید سفید انڈے خود ہی اس کی چغلی کھا رہے تھے.. اور گھر گھر پکار رہے تھے ۔۔
وہ لڑکا اس کے لیے راستہ بناتا گیا وہ سڑک تک پہنچ گیا مگر اسے یقین نہیں آیا کسی نے اسے غصے سے نہیں دیکھا۔۔۔ اسے زبردستی نہیں روکا اس کا ٹائر نہیں موڑا۔۔۔ انڈے نہیں توڑے۔۔۔ یہ کیسے لوگ تھے یہ کچھ الگ سے تھے ۔۔ لبیک لبیک یا غزہ!! وہ کنارے کھڑا ہو کر گاڑیوں، بائیکوں بسوں کے اس قافلے کو دیکھتا رہا ۔۔۔ مہنگی مہنگی گاڑیوں کے درمیان رکشے بھی تھے ان پر بھی جھنڈے لہرا رہے تھے۔۔۔ ملین مارچ آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔
جانے کیا ہوا اس کا اب گھر جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا، مگر گھر تو اگلی گلی میں تھا، اس نے تیزی سے بائیک بھگائی ۔۔۔ ذرا دیر بعد وہ تیز رفتاری سے ریلی میں شامل ہو رہا تھا۔۔ اب اس کی بائیک بہت تیز بھاگ سکتی تھی۔۔۔ اب اس کے پاس کوئی تھیلی نہیں تھی۔۔۔ شاید کوئی بچہ جھنڈا لیے اس کا انتظار کر رہا تھا!! اسے جلدی پہنچنا تھا۔۔۔