اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسرائیل خاموشی کے ساتھ سرگرم عمل تھا وہ اپنے مذموم عزائم کا ببانگ دہل اعلان کرتا ہے اور فلسطین کی سرزمین پر قبضہ اپنا حق سمجھتا ہے اس سلسلے میں وہ کسی قسم کے اخلاقی اور سیاسی ضابطے کو قبول نہیں کرتا۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کئی قراردادیں پیش کی گئی جنہیں اس کے دیرینہ حلیف امریکہ نے ہر بار ویٹو کر دیا۔ امریکہ نے جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتا ہے اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کر کے ثابت کر دیا کہ اس کے تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی میں وہ براہ راست ملوث ہے۔
اسرائیل نے فلسطین کے عوام کو زبردستی ان کی سرزمین سے بے دخل کر کے ان کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر ان گھروں میں آباد کیا، اسلحے کے زور پر فلسطینی عوام کو ان کے وطن سے نکال کر امریکہ کی مدد سے دنیا کے مختلف ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کیے فلسطین میں اپنی سرگرمیوں کو خفیہ رکھنے کے لیے میڈیا اورانٹرنیٹ کو استعمال کیا اپنے اثر و رسوخ اور دولت کو استعمال کر کے فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کیا اور اپنی ناجائز ریاست کو وسیع کرنے کے لیے مصروف عمل رہا اس مقصد کے لیے اس نے اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کیا لیکن اس کے تمام اقدامات کا پول اس وقت کھل گیا جب حماس نے سات اکتوبر کو سینکڑوں میزائل فائر کر کے اسرائیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
اسرائیل کی بہترین اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس فورسز کو حماس کے اس منصوبے کی کان وکان خبر نہ ہوئی ، وہ اس اچانک ٹوٹ پڑنے والی افتاد پر بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے، انہوں نے جوابی کارروائی کے طور پر فلسطین کی نہتے عوام پر دھاوا بول دیااور دن رات جدید ہتھیاروں کے استعمال سے فلسطینی سرزمین کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا۔
اسرائیل نے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہتے فلسطینی عوام عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا ،اسکولوں اور اسپتالوں کی عمارتوں پر بمباری کی، فلسطین میں خوراک اور پانی کی ترسیل پر پابندی لگا کر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کی۔
حماس اور اسرائیل کی اس جنگ کے نتیجے میں دنیا بھر کے عوام اسرائیل کے فلسطینی مزاحمت کی تحریک کو نئے سرے سے زندہ کر دیا اور عزائم سے باخبر ہو گئے انہوں نے معصوم عورتوں اور بچوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی خود اسرائیل کے سب سے بڑے حلیف امریکہ اور برطانیہ میں طلبہ اور عوام اسرائیلی ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ فلسطینی عوام کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف جلوس اور مظاہرے کیے گئے جلوس نکالے گئے اور مظاہرے کیے گئے۔
اسرائیل کے حواریوں نے جنگ کی ذمہ داری حماس پر ڈالنے کی کوشش کی کہ اگر حماس حملہ نہ کرتی تو اسرائیل جنگ شروع نہ کرتا ،مگر اسرائیل نے تو کبھی جنگ ختم ہی نہیں کی وہ فلسطین کے عوام کو ختم کرنے کی کاروائیوں میں مصروف رہا ۔
اسرائیل فلسطینی عوام کوان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کر کے تیزی سے یہودی بستیاں آباد کر رہا تھا جو کوئی مزاحمت کرتا اسرائیل اسے ختم کر دیتا دنیا بھر کے ممالک اسرائیل کی ان کاروائیوں سے بے خبر اس کے فریب کا شکار ہو چکے تھے عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف قدم بڑھا رہے تھے عرب امارات نے تو اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیا تھا۔
سات اکتوبر کے حملے نے اسرائیل کے ظلم اور جبر کو دنیا میں بے نقاب کر دیا اب معاملہ پوری دنیا کے سامنے آشکار ہو گیا ہے۔اسرائیل نے حماس کے حملے کو بنیاد بنا کر اپنی کاروائیوں کو دفاعی جنگ قرار دیا مگر یہ کیسا دفاع ہے جس میں مظلوم عورتیں اور نہتے عوام کو نشانہ بنایا گیا ہسپتال اورا سکول کی عمارتوں کو، زخمی اور پناہ گزینوں کے کیمپوں کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ یو این او کے خوراک تقسیم کرنے والے امدادی قافلوں پر بھی فائرنگ کی گئی بچوں کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کیا گیا ،حقیقت یہ ہے کہ صہیو نی فورسز نے فلسطین میں انسانیت کی تذلیل کی بچوں اور عورتوں کا قتل عام کیا بیمار اور زخمی لوگوں تک کو نہ چھوڑا ،ان کو روکنا اقوام عالم کا فرض ہے۔
فلسطین کے بعد اب لبنان میں بھی اسرائیل نے قتل عام شروع کر دیا ہے عبادت گاہوں مسجدوں اور گرجا گھروں کو بھی نشانہ بنایا گیا صہیونی افواج کے نزدیک کسی مذہب کی حرمت کوئی مقام نہیں رکھتی مسلم ممالک کے بعد بعید نہیں یہ جرمنی کی طرح امریکہ کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دیں اس لیے دنیا بھر کے ملکوں کو چاہئے اسرائیل کو روکنے کے لیے مناسب اقدام کریں ،فلسطین کے عوام کو ان کا حق دلائیں۔اسرائیلی حکومت جنگ پھیلانے پر تلی ہوئی ہے اس کو روکنے کے لیے نیٹو کی طرز کا اتحاد قائم کیا جائےاور امن کے لئے خطرہ بننے والے اسرائیل کی سرکوبی کر کے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔