طاقتوں کی راہداریاں

لبنان اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی میں حالیہ دنوں میں ایک بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ اسرائیل نے لبنان پر ایک بڑا حملہ کیا، جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کے جاں بحق ہوگئے ۔ یہ واقعہ نہ صرف لبنان بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ حزب اللہ خطے میں ایران کے حلیفوں میں سے ایک طاقتور قوت رہی ہے۔

حسن نصراللہ تقریباً تین دہائیوں سے حزب اللہ کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے لبنان میں ایک بڑی عسکری اور سیاسی قوت کے طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ 2006 کی اسرائیل-لبنان جنگ کے بعد، حزب اللہ کو ایک قابل ذکر مزاحمتی تحریک کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو اسرائیل کی عسکری طاقت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

حسن نصراللہ کی موت حزب اللہ کے لیے ایک بڑا نقصان ہے، کیونکہ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے خطے میں ایران کی حمایت کے ذریعے اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے خلاف مضبوط موقف اپنایا۔ حزب اللہ کے پاس ایک بڑی عوامی حمایت بھی موجود تھی، خاص طور پر شیعہ مسلمانوں میں، جو نصراللہ کو ایک ہیرو اور مزاحمتی رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔

اسرائیل کا حالیہ حملہ حزب اللہ کی مسلسل بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور لبنان کے جنوبی علاقوں میں اس کی موجودگی کے پیش نظر کیا گیا۔ اسرائیل کو خدشہ تھا کہ حزب اللہ ایران کے ساتھ مل کر اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے بار بار اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں کیں اور جنوبی لبنان کو ایک مزاحمتی قلعہ بنایا۔

اسرائیل کی خارجہ پالیسی میں یہ اصول شامل ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے قریب کسی بھی ایسی تنظیم یا ریاست کو طاقتور ہونے نہیں دے گا جو اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکے۔ اس پس منظر میں، اسرائیل کا حملہ نصراللہ کی قیادت کو ختم کرنے اور حزب اللہ کی طاقت کو کمزور کرنے کی ایک اہم حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

حسن نصراللہ کی موت کے بعد، حزب اللہ کی قیادت میں خلا پیدا ہو سکتا ہے، اور تنظیم کو اندرونی انتشار یا قیادت کی تبدیلی کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ حزب اللہ ایک منظم تنظیم ہے، لیکن نصراللہ جیسا کرشماتی رہنما تنظیم کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ ان کی موت سے حزب اللہ کے اندر قیادت کی کشمکش پیدا ہو سکتی ہے۔

ایران حزب اللہ کا سب سے بڑا حامی ہے اور نصراللہ کی موت ایران کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ہے۔ ایران حزب اللہ کو اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ اور اسرائیل کے خلاف اپنے عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اس حملے کے بعد ایران کا ردعمل نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے کی سیاست پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ایران کی جانب سے حزب اللہ کی حمایت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، یا وہ اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے خطے میں کسی اور محاذ پر اسرائیل کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔

لبنان پہلے ہی اقتصادی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ حزب اللہ کے خلاف اس حملے سے لبنان کی داخلی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ حزب اللہ لبنان کی سیاست میں ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے اور اس کی کمزوری یا قیادت میں خلا پیدا ہونے سے لبنان میں مزید افراتفری اور داخلی تقسیم کا امکان بڑھ سکتا ہے۔

اسرائیلی حملہ خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ حزب اللہ کے ردعمل میں اسرائیل کے خلاف مزید حملے ہو سکتے ہیں، جس سے لبنان اور اسرائیل کے درمیان ایک نئی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل کے دیگر مخالفین جیسے فلسطینی گروپ، ایران یا شام بھی اس واقعے کو اسرائیل کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

عالمی برادری، خاص طور پر مغربی طاقتیں، اس صورتحال کو بڑے غور سے دیکھ رہی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں بہت سے ممالک اسرائیل کے حمایتی ہیں، لیکن وہ لبنان میں مزید عدم استحکام نہیں چاہتے۔ اگر لبنان میں خانہ جنگی یا مزید عسکری کشیدگی بڑھتی ہے تو عالمی برادری کو بھی اس پر سفارتی اور انسانی مدد فراہم کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔