بزرگ سرمایہ ہیں

معمر افراد اور بزرگ ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی، اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں معاشرے کی تعمیر اور ترقی کے لیے وقف کر دیں۔ ایسے افراد جب عمر کے اخیر حصے میں، کمزوری اور بڑھاپے کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ جو خدمات انہوں نے بحیثیت ماں، باپ، استاد، ہنر مند کسی نہ کسی طریقےسے انجام دے کر معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا ،اس کے صلے میں انہیں عزت اور احترام دیا جائے۔

ماں باپ اپنی زندگی کا بہترین حصہ اپنی اولاد کی نشونما اور پرورش کے لیے وقف کر دیتے ہیں ان کی تمام کوششوں کا محور ان کی اولاد ہوتی ہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد کو بہترین مواقع ملیں وہ عزت کی زندگی بسر کرے اس کی تمام ضروریات پوری ہوں اور وہ دنیا کے ہر امتحان میں کامیابی حاصل کرے اس مقصد کے لیے وہ اپنے وقت اور صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں ، اپنے سکون اور آرام کی قربانی دیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جانے کے بعد بھی، بیماریوں کا شکار ہو جانے کے بعد بھی اولاد کی خیر خواہی میں مصروف رہتے ہیں۔

ایک استاد اور ایک ہنر مند اپنے فن اور اپنی علم کو پھیلانے میں اس کو نکھارنے میں عمر کے اخیر حصے تک مصروف رہتا ہے وہ اپنا ہنر اور علم نئے افراد تک منتقل کرتا ہے اس میں نئی جدتیں تلاش کرنے میں اپنی بہترین عمر گزار دیتا ہے یہاں تک کہ اسے بڑھاپا آن لیتا ہے وہ کمزور پڑ جاتا ہے اور مزید کام کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔ بزرگ افراد نے چونکہ دنیا میں ایک عمر گزاری ہوتی ہے وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں انہوں نے زمانے کے نشیب و فراز کا جو مشاہدہ کیا ہوتا ہے اس کو وہ نئے افراد تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ نئے افراد اور نئی نسل ان سے فائدہ اٹھا سکیں ان کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ان غلطیوں کا اعادہ نہ کریں۔

دنیا میں آج تک جتنی ترقی ہوئی ہے ایسے ہی افراد کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے انہوں نے اپنی علم اور تجربات کو آنے والی نسلوں میں سینہ بہ سینہ منتقل کیا اس طرح تہذیب تماشرت اور تمدن میں ترقی ہوئی چنانچہ آج کا ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ انسان جس مقام پر کھڑا ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے وہ ہمارے بزرگوں کی محنتوں اور کاوشوں کا مرہون منت ہے۔

بزرگ کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں جن کی محنتوں اور کاوشوں کے نتیجے میں قوم نے ترقی کی منازل طے کیں اور موجودہ مقام تک پہنچی یہی وجہ ہے کہ بہترین معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگ افراد کے ادب ،احترام ، ان کے تحفظ اور آرام کو یقینی بناتا ہے۔

بزرگوں کے بارے میں دین اسلام کی ہدایات کو تمام مذاہب میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اسلام بزرگوں کے ادب اور احترام کا حکم دیتا ہے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ یعنی ایک سچے مسلمان کی یہ پہچان ہے کہ وہ بزرگوں کا احترام کرتا ہے۔

اسلام میں ماں باپ کے ادب احترام کی زبردست تاکید کی گئی ہے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ “والدین کے ساتھ احسان کا رویہ رکھو۔”

حدیث پاک میں ہے کہ تمہارے ماں باپ ہی تمہاری جنت یا دوزخ ہیں یعنی ان سے نیک سلوک تمہیں جنت میں لے جائے گا اور برا سلوک دوزخ کا مستحق بنا دے گا۔ قرآن پاک کی متعدد آیات اور احادیث مبارکہ کی ایک بڑی تعداد میں ماں باپ سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔

موجودہ دور میں مغربی تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی اور تہذیب کی چکا چوند نے ہمارے معاشرے کو اس بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ نام نہاد ترقی کی دوڑ میں رشتے ناتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آئے دن بزرگوں کی بے توقیری دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہیں بوجھ سمجھا جانے لگا ۔

مغربی اثرات کے زیر اثر ہمارے معاشرے میں مذہب سے دوری کے سبب بہت سے شہری علاقوں میں معمر افراد کے لیے اولڈ ہاؤسز قائم ہو گئے ہیں جہاں لاوارث اوراولاد کے ستائے ہوئے بزرگ افراد کو رکھا جاتا ہے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جن افراد نے اپنی زندگی کے بہترین ایام اولاد کی پرورش میں گزارے آج بے بسی اور لاچاری کے عالم میں اپنے گھر والوں کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں بے حد ضروری ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دے کر بزرگوں اور معمر افراد کے ادب اور احترام کے تصور کو اجاگر کیا جائے اور انہیں وہ مقام دیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔