مشہور کہاوت ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے، دنیا میں انسان امیدوں کے سہارے زندگی گزار تاہے۔ اُمید خواہشات کے پورے ہونے کی توقع یا صورت کے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اُمید کے مترادف الفاظ آرزو، جستجو، خواہش اور توقع ہیں۔ اگر اس لفظ کے متضاد الفاظ دیکھیں تومایوسی، قنوط اور ناامیدی ہیں۔ امید تبدیلیوں کے در وا کرتی ہے ۔ ایک کسان جب ایک بنجر زمیں پر محنت کرتاہے اور اس زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتاہے ۔اس کی محنت اورجدوجہد کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے یہی امید ہوتی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ یہ زمین پیداوار لائے گی یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے کسان اپنے آرام کو ترک کردیتاہے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتں لگا تاہےاور پھر ایک دن اس کی امیدیں بر آتی ہیں کہ غلّہ وہ منڈی میں فروخت کرکے پیسے وصول کرتاہے۔ انسان جاگتے ہوئے خواب تو نہیں دیکھتاہے مگر یہی وہ اُمیدیں ہوتی ہیں جس کو وہ بطور خواب اپنے مستقبل کے لیے سجاتاہے اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتی تویہی وہ خواب ہیں جو چکنا چور ہوجاتے ہیں گویا وہ ناامیدی کے دلدل میں دھنسنا شروع ہوتاہے۔ ناامیدی انسان کے حوصلوں کے لیے سم قاتل ہے یہ انسان کو کچھ کرنے سے پہلے ہی کچھ نہ کرسکنے کا پیغام سنا کر بٹھا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے انسان کو دین اسلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہو۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مشاہد یہ بتارہا ہے کہ حکمران اور ادارے قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کے ایجنڈے پرکاربند ہیں اور اس میں بھی ان کا ہدف نوجوان ہیں حکمران اور تمام ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مایوسی اور نا اُمیدی کے سائے جتنے زیادہ گہرے ہوں گے ان کا کام اتنا آسان ہوگا۔ پاکستانی قوم جس وقت آزادی کی دولت سے سرفراز ہوئی اس وقت معیشت کمزور تھی، فوج کمزور تھی بمعنی جدید ہتھیار، سرکاری دفاتر میں کاغذ اور فرنیچر بھی پورے نہ تھےمسائل کا ایک جنگل تھا مگراس وقت اُمیدوں کے ساتھ قوم آگے بڑھ رہی تھی مگر انگریزوں کے شاگردوں نے جب اقتدار پر ایوّب خان کی صورت میں قبضہ کیا تو ان شاگردوں نے اپنے استادوں کے اصول کو اپنایا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو مایوس کردیا جائے۔ پاکستان کے اندر مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ خود کشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے تقریباً ستّر سال ہوچکے ہیں۔ ایسے میں عوام کا کسی جماعت پراعتماد کرنا آسان نہیں ہیں۔ عوام صحرا کے اس مسافر کی طرح جو راستہ بھٹک چکا ہے سفر کرتے کرتے کسی جگہ سوجائے کہ اب موت ہی آنی ہے۔
ایک مسلمان جس کے دل میں ایمان کی شمع جل رہی ہو وہ کبھی بھی مایوس ہوکر نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا رب اللہ ہےاس کی رحمت بڑی وسیع ہےاس کی رحمت سے مایوس ہونا گویا کفر ہے۔ اس وقت جب پاکستان کے قیام کے اسباب بظاہر نظر نہیں آتے تھے مگر جدوجہد کے نتیجے میں اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی اور پاکستان وجود میں آگیا مگر آج تو پاکستان کے حالات کی بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ منزل دور ہے مگر نظر آرہی ہے مثال کے طور پر حق دو کراچی کی تحریک کے نتیجے میں کراچی کے سارے تو نہیں مگر کچھ بڑے مسائل حل ہوئے اور کچھ مسائل عوام کے سامنے آئے حقوق غصب کرنے والوں کے چہروں پر سے نقاب اتر گئے اسی طرح جب یہی تحریک حق دو عوام کی تحریک میں ڈھلی تواس سے بھی بہت سے مسائل کی وجہ سامنے آنے لگی اوراسی جدوجہد کے نتیجے میں وہ لوگ جو کہ مسائل کھڑے کرنے والے تھے وہ بھی مسائل کا اعتراف کرنے لگے انہی مسائل کی وجوہات میں آئی پی پیز سے ظالمانہ معاہدات، مراعات یافتہ اشرافیہ بھی سامنے آیا۔ سیاسی جماعتیں اس وقت مسائل کا رونا عوام کے سامنے روتی ہیں جب انتخابات میں عوام سے ووٹ لینا ہوتاہے اور عوام میں ووٹ لینے کے لیے جاناہوتاہے اس کے بعدعوام ان کےلیے غیر اہم ہوجاتے ہیں۔
اس پورے پس منظر میں جب کہ نہ انتخابات قریب ہیں نہ کوئی کرسی کی رسہ کشی ہےجماعت اسلامی ہی وہ واحد عوامی جماعت ہے جس کی حق دو عوام تحریک عوام کو متوجہ کررہی ہےکہ منزل دور سہی مگر نظر آرہی ہے دوسری بات اس سے اہم ہے کہ جماعت اسلامی کی جدوجہدکے بے لوث ہونے کےلیے یہی دلیل کافی ہے کہ دور دور تک انتخابات نہیں ہیں عوام سے ووٹ لینے کےلیے جانا ہے۔ بس عوام کا کام یہی ہے کہ مایوسی کی چادرجس کو حکمرانوں اور اداروں نے آپ کے اوپر ڈال دی ہے۔ اور بار بار یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ان دھرنوں، احتجاجوں سے کچھ نہیں ہونے والا حالات اسے ہی رہیں گے اس کیفیت سے باہر نکلیں۔ جب ہاتھی کے بچّے کو جنگل سے پکڑ کر لایا جاتاہے تواس کے پیروں میں ایک زنجیر ڈال دی جاتی ہے وہ بچہّ بار باراس زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرتا رہتاہے مگراس وقت وہ اس کو توڑ نہیں پاتا مگروہی ہاتھی جب جوان ہوجاتاہے اوراس کے ایک ہی جھٹکے سے زنجیر ٹوٹ سکتی ہو وہ زنجیر کو توڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتا کیونکہ وہ مایوس ہوچکا ہوتاہے۔ یہ حکمران طبقہ اور جتنے بھی ادارے ہیں یہ مفادات کے اسیر ہیں یہ وہ دیمک ہے جواس عمارت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرچکی ہےصرف دیکھنے کی عمارت ہے یہ ایک ہی عوامی دھکے سے زمین بو س ہوجائے گی بنگلہ دیش کی حالیہ تحریک اس بات کی شاہدہے۔ آیئے مایوسی سے بچیں اور جماعت اسلامی پر اعتماد کریں۔