وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَاتَفَرَّقُوْا۪-وَاذْكُرُوْانِعْمَتَ اللہِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ-وَكُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(103)۔
۔ترجمہ: اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو اوراللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچالیا۔ اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔
قرآن کہتا ہے کہ آپس میں تفرقہ نہ ڈالو پھر یہ خوش ہونا کہ تم آپس میں اچھا کرتے تھے تو تم سب کو ایک کر دیا اسلام دین فطرت ہے، محبت اور شانتی کا مذہب ہے جو جھگڑے بڑھاتا نہیں بلکہ ختم کر تا ہے۔
آج کے دور میں تعلیمی اداروں میں اور دیگر دوسرے معاشی، معاشرتی اداروں میں مذہب اور سیاست پر بات کرنا منع ہے یہ لکھ کر اویزاں کر دیا جاتا ہے ۔کیا یہ لوگ مذہب سے خوفزدہ ہیں اسلام سے خوفزدہ ہیں۔
اس بات کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان موضوعات پر بات کرتے ہوئے انسان جذباتی بھی ہو جاتا ہے جھگڑے بڑ ھ جاتے ہیں۔ جبکہ پرچون کی دکان پر، پنساری کی دکان پر، راستوں میں، چوک اور چوراہوں پر، بسوں میں ٹرین میں زور و شور سے ان موضوعات پر بات ہو رہی ہوتی ہے کوئی روک ٹوک نہیں ہے جبکہ ان مقامات پر بہت زیادہ تعلیم یافتہ افراد نہیں ہوتے۔
کہا یہ جا تا ہے کہ اب لوگوں میں قوت برداشت ختم ہو گئی ہے برداشت کیوں کر ختم ہوئی، تربیت کی کمی ہے یا تربیت کا فقدان ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برداشت کیوں ختم ہوئی، کیسے ختم ہوئی اور کیا اس کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ اور کیا سب کچھ برداشت کرنا اچھا ہے اور انسان پہ کل مٹی کا مادھو بن جائے اچھا یا برے کی کوئی تعمیز نا ہو خاموشی سے دیکھتا، سنتا اور سہتا رہے کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہ کرے۔ نہیں اصل تو یہ بات ہے کہ رد عمل کس طرح کیسے اور کس مقدار میں ظاہر کیا جائے اس کی تربیت ہونی چاہیے اس کی مشق کرنی ہوگی ۔
انسان کچھ معیار بناتا ہے کوئی کسوٹی رکھتا ہے کوئی پیمانہ رکھتا ہے پھر فیصلہ کرتا ہے کیا اچھا ہے، کیا برا ہے، کسے اپنانا ہے اور کسے رد کرنا ہے، کن چیزوں پر احتجاج کرنا ہے کن کو رد کرنا ہے اور کن کو اپنانا ہے کس کو برداشت کرنا ہے درگزر کرنا ہے یہ شعور صرف اسلام دیتا ہے۔ یہ معیا ر، یہ کسوٹی، یہ پیمانہ یہ پرکھ جو حق وباطل کی تمیز سکھائے وہ اسلام ہے، یہ راستہ جس پر نبی مہرباںﷺ لے کر چلے۔ جس پر روشنی قرآن نے ڈالی۔