زبانیں سیکھیں، فاصلے مٹائیں

زبان اور بیان کی خوبیاں اصل میں ہمیں کسی بھی محفل میں ممتاز بنا دیتی ہیں لیکن گفتگو موقع محل کی مناسبت سے ہونی چاہیے ۔ انسان زبان کے وجود میں آنے سے قبل اشاروں کنایوں کا سہارا لیتا تھا لیکن اب جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا اس میں اپنی سوچ کو الفاظ کا روپ دینے کی صلاحیت پیدا ہوئی ۔

ہمارا انداز گفتگو ہمارے مقابل پر بہت کچھ واضح کر دیتا ہے قتیل شفائی کا یہ شعر تو سب ادبی ذوق رکھنے والوں نے سنا ہو گا ۔

جتنے بھی لفظ ہیں وہ مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انہیں تلوار مت بنا

زبان سیکھنا اور پھر اس میں مہارت حاصل کرنا بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام کا ایک مشہور قول ہے کہ جس کی زبان سیکھو گے اس کے شر سے محفوظ رہو گے ۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان چینی اور سرکاری سطح پر انگریزی ہے جبکہ پاکستان میں آٹھ فیصد لوگ اردو اور اڑتالیس فیصد لوگ پنجابی بولتے ہیں ۔

واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں زبانوں سے متعلق انکشاف کیا کہ دنیا کی بارہ زبانیں ایسی ہیں جنہیں دنیا کی دوتہائی اکثریت بولتی اور سمجھتی ہے ان میں پانچ ایشیائی زبانیں ہیں جن میں چینی زبان سر فہرست ہے جسے دنیا میں ایک ارب انتالیس کروڑ افراد بولتے ہیں ۔

اردو اور ہندی کو ایک ہی درجے میں رکھا گیا ہے اور یہ دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے جسے لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں یعنی اٹھاون کروڑ پچاس لاکھ افراد ۔۔۔

براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ دو ہزار تین سو ایک زبانیں بولی جاتی ہیں اور یورپ میں صرف دو سو چھایسی زبانوں میں اظہار خیال ہوتا ہے ۔ انگریزی ترپن ممالک کی سرکاری زبان ہے ۔ اب اگر ہم اردو پر بات کریں تو یہ بات قابل افسوس ہے کہ اب تک ہماری قومی زبان کو وہ مقام نہیں ملا جو اسکا حق تھا ۔ اگرچہ کہ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا حکم دیا ہے لیکن ابھی اس کے لئے بہت محنت اور وقت درکار ہے ۔

اب اگر ہم غور کریں تو مثال کے طور پر سپریم کورٹ کے تمام قوانین ، ضابطے اور آئین کی تشریح و تو ضیح ایک اہم کام ہے اور ان کی اصلاحات اور متبادل اردو میں ڈھونڈنا نسبتا ایک مشکل امر ہے لیکن اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا حکم مستقبل قریب میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ عدالت عالیہ کے اکثر فیصلے مفاد عامہ کے لئے ہوتے ہیں اس لئے اس فیصلے سے بھی یقینا بہتری آئے گی ۔

مغل عدالتوں کی زبان فارسی تھی جسے بعد ازاں تبدیل کر کے اٹھارہ سو سینتیس میں اردو کو سرکاری زبان بنا دیا گیا ۔ ڈاکٹر روف پاریکھ نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ اردو لشکری زبان نہیں ہے اور پاکستان کے قومی ترانے میں ایک لفظ  بھی ایسا نہیں جو اردو میں استعمال نہ کیا جاتا ہو ۔

ہمارے ملک میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ایک ایسا ادارہ ہے جو مختلف زبانوں کی ترویج کے لئے انیس سو ستر میں قائم کیا گیا ، یہ ادارہ جو انتیس مئی سن دو ہزار میں یونیورسٹی کی شکل اختیار کرگیا یہاں ستائیس مشرقی اور یورپی زبانوں کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے ۔ اب سوال یہ کہ ہے کہ کوئی غیر ملکی زبان کیوں سیکھی جاتی ہے جب کہ ہمیں اپنی مادری اور قومی زبان آتی ہے تو اس کا صرف اتنا جواب ہی کافی ہے کہ زبان کسی بھی قوم کی تہذیب اور ثقافت کی آئینہ دار ہے ، میرے خیال کے مطابق نمل کو صرف زبانوں کی ترویج کا ادارہ ہی ہونا چاہیے ۔ہمارے نصاب میں اردو کے حوالے سے تبدیلی کی ضرورت ہے قومی زبانوں کے ساتھ ساتھ مادری اور علاقائی زبانیں سیکھنا بھی ایک ہنر ہے ، جنہیں سیکھنے سے ہم آپسی فاصلے مٹا سکتے ہیں ۔