سیرت النبیﷺ اورحُسنِ معاشرت

زیست صحرا تھی ، صحرا سے گلشن ہوئی
شمع ، عرفان و ایقان کی روشن ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر بسر تھے جو ہر بات سے بے خبر
ہو گئے با خبر دیکھتے دیکھتے

ماہ و انجم کے مسلسل  صبر آزما انتظار کو بارہ ربیع الاول کی سحر نے ایک ایسے انوکھے مضراب سے مضطرب کیا کہ نغمات سحر سے مسحور کائنات کا ذرہ ذرہ سراپا شکر بن کر اپنے خالق کے سامنے سر بسجود ہو گیا اور تصور انسانی سے دور منزلوں کا راہی معصومیت کے حسین ترین پیکر میں جلوہ افروز ہو گیا ۔ خدائے بزرگ و برتر نے اپنے آخری پیغمبر کو قرآن کی دولت سے سرفراز فرما کر ایسا طریق مستقیم اُمت کو بخش دیا جس پر چلانے کے لئے خالق نے اپنی مخلوق کے لئے واضح ہدایات ہمیشہ کے لئے وقف کر دیں ۔ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کو ان ہدایات کے ساتھ مزین فرما کر قرآن کی عملی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کر دیا کہ

ہے سب میں نمایاں تری سیرت کی تجلی
تعلیم کے گلشن ہوں کہ تہذیب کے اسواق

              حسن معاشرت کے معنی ہیں افراد معاشرہ کے ساتھ حسن سلوک ۔ وہ ہادی صلی اللہ علیہ وسلم جو اخلاق حسنہ کا کامل نمونہ تھا اس کے معاشرتی معاملات کیوں نہ بے مثال ہوں گے ؟ آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا گیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز معاشرت اپنے گھر میں کیا تھا ؟ جواب ملا  ” آپ اپنے ہاتھ سے اپنے کپڑے سی لیتے تھے ۔ بلکہ اپنے جوتے مرمت کر لیتے تھے۔ باقی کام وہی تھا جو ایک شریف مرد اپنے گھر میں کرتا ہے”۔ (الترمذی)

             ازواج مطہرات کے ساتھ آپ کا رویہ اس قدر احسن تھا کہ ان میں سے کسی کو کبھی آپ سے شکایت نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں ارشاد مبارک ہے ” تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہے اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں  ” ( سنن ابن ماجہ)

            جس غلام نے نو سال تک آپ کی خدمت کی اس کے الفاظ آپ کے بارے میں ملاحظہ ہوں  ” میں نو سال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا۔ آپ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا ؟ ” (صحیح مسلم)

            بیٹیوں سے اس قدر اظہار محبت کہ حضرت فاطمتہ الزہرا جب تشریف لاتی ہیں ، فرط مسرت سے آپ ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے ہیں۔ سفر سے واپس آتے ہیں تو سب سے پہلے خاتون جنت کے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔ اُن کی اولاد سے محبت کا یہ عالم ہے کہ نماز کے دوران بھی حضرت امام حسن اور حسین کی دلجوئی کا خیال رہتا ہے۔ سجدہ لمبا تو کر لیا جاتا ہے لیکن پشت پر سے اتار کر معصوم بچے کا دل توڑنا گوارا نہیں ہوتا ۔ رضاعی ماں آجاتی ہیں تو کھڑے ہو کر استقبال ہوتا ہے اور اپنی چادر ان کے بیٹھنے کے لئے بچھادی جاتی ہے اور انعام واکرام کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے ۔ حسن معاشرت کی اس سے اعلیٰ مثال کیا ہوگی کہ محبوب رب کائنات ہیں لیکن اپنے رفقاء میں کبھی امتیازی شان پسند نہیں فرمائی ۔ کہیں ان کے ساتھ مل کر خندق کھود رہے ہیں تو کہیں جنگل سے لکڑیاں جمع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

          افراد معاشرہ کو باہم مربوط رکھنے کا اس سے بہتر انداز کیا ہو سکتا ہے؟ فرمایا ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں”۔ (السلسلة الصحيحہ (270)

        مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی اس طرح وضاحت کی ۔ ” مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اُسے چھوڑ دیتا ہے۔ نہ اس کی غیبت کرتا ہے نہ اُسے غمگین کرتا ہے اور نہ اسے اُس کے حق سے محروم کرتا ہے۔ “

       مزید ارشاد ہوتا ہے ” مخلوق اللہ کی عیال (زیر کفالت) ہے ، اور مخلوق میں سے وہ شخص اللہ کو زیادہ پسند ہے جو اس کی عیال سے اچھا سلوک کرتا ہے ۔‘‘

( رواہ البیھقی فی شعب الایمان )

مشکوٰة المصابیح #4998

        باہمی لین دین کی اصلاح اس طرح فرمائی ”سچا اور امانت دار تاجر  ( قیامت کے دن )  انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“۔ (سنن ترمذی#1209)

      حقوق والدین کی ادائیگی کی تلقین کا ایسا انوکھا انداز ہے۔ ” حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! اولاد پر والدین کا کیا حق ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ تیری جنت اور تیری جہنم ہیں ۔‘‘ (سُنن ابن ماجه‎#3662)

         محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھیوں میں سے کوئی تین دن تک نظر نہ آتا تو اس کی کھوج شروع کر دیتے۔ اگر وہ غائب رہتا تو اس کے لئے دعا فرماتے ۔ اگر حاضر ہو جاتا تو اُس کی مدد فرماتے اور اگر بیمار ہوتا تو عیادت فرماتے ۔

         غرض حیات انسانی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمِ بصیرت سے پوشیدہ رہا ہو۔ بے شمار کتب سیرت اس کی گواہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان سیرتِ طیبہ کی روشنی سے اپنے کردار کو مزین کرلیں ۔ ہمارا کردار اہل عالم کے لئے ایسا نمونہ ہو کہ انسانیت ہمارے زیر نگین آنے پر فخر محسوس کرے اور ہم معلم انسانیت کے امتی ہونے پر ناز کریں ۔

سلام اُس پر کہ عبدیت بھی جس پر ناز کرتی ہے
ثریا سے پرے انسانیت پرواز کرتی ہے۔