عدل وانصاف سنتِ رسولﷺ

قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی اس کا تعلق ایک بااثر گھرانے سے تھا سرداران قریش نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفارش کے لیے بھیجا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت عزیز رکھتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی بات سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہو گیا آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ

تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے لیکن جب کوئی عام آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتی تھیں ۔اللہ کی قسم محمد صلی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (صحیح بخاری و مسلم)۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد عدل و انصاف اور مساوات پر رکھی قانون کی نظر میں امیر غریب آقا غلام کا کوئی فرق روا نہ رکھا یہی قرآن کی تعلیمات تھیں جنہیں نبی آخر الزمان نے معاشرے میں عملا نافذ کیا۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ انصاف اور عدل کو پیش نظر رکھتے آپ کی اس سنت پر بعد میں خلفائے راشدین بھی کاربند رہے اور  حدود اللہ کی پابندی کے معاملے میں کسی غفلت سے کام نہ لیا ۔

آج مسلمان زوال کا شکار ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ عدل و انصاف کو پس پشت ڈال دینا ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردانی ہے۔ عدل وانصاف سے عاری معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ  امیر اور غریب کے لیے قانون کے الگ الگ معیار ہیں۔ وطن عزیز میں غریب کوئی جرم کرے تو فورا پکڑا جاتا ہے مگر با اثر لوگ پیسے کے بل بوتے پر نہ صرف سزا سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں بلکہ مجرم ہونے کے باوجود دندناتے پھرتے ہیں ۔

حال ہی میں کراچی کے علاقے کارساز میں ایک عورت نے دو معصوم افراد کو اپنی کار تلے کچل ڈالا۔ دو افراد کی یہ قاتل باثر خاندان سے تعلق رکھتی ہے اس بنا پر مجرم ہونے کے باوجود  لواحقین کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کر کے آزاد ہو گئی۔ اس سے پہلے شاہزیب نامی نوجوان کو قتل کرنے والے ایک جاگیردار کے بیٹے شاہ رخ جتوئی نے بھی اپنی دولت سے قانون کو خرید لیا ریمنڈ ڈیوس ایک امریکی شہری تھا اس نے دو پاکستانی نوجوانوں کو ہلاک کیا اور جب گرفتار ہوا تو اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے سزا سے بچ گیا۔ دوسری جانب کئی ایسے بے گناہ جیلوں میں سڑ رہے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں انصاف کے اس دوہرے معیار نے ہمارے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ملازمت نوجوان طبقہ نا انصافی اور بدعنوانی کی فضا میں مایوسی کی وجہ سے جرائم کی طرف مائل ہے اور جس کا اندازہ آئے روز ڈکیتی، چوری اور قتل کی وارداتوں سے ہوتا ہے۔

 ہم نبی اکرم ﷺ کے پیروکار ہونے کے باوجود ناانصافی پر خاموش رہتے ہیں اس کے خلاف آواز تک نہیں اٹھاتے حالانکہ ہمارے نبی کی سنت تو یہ ہے کہ انہوں نے ظلم اور زیادتی کے نظام سے مفاہمت نہ کی یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ ان کے دشمن ہو گئے آپ نے وڈیروں اور سرداروں کو دعوت دی کہ وہ خدائی نظام کو قبول کریں جب انہوں نے انکار کیا اور مزاحمت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیروکار ہونے کے ہمارا فرض ہے کہ ہم سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے ظلم اور نا انصافی کو روکنے کی کوشش کریں رسول ﷺکی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت پر عمل کریں اور اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں اسلامی اصول وقوانین کو نافذ کریں تاکہ آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق بنیں اور اللہ کے حضور سرخرو ہوں سکیں۔