مجھے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی اگر شادی کے بعد میں پردہ کرنا چاہتی ہوں تو اس میں مسئلہ ہی کیا ہے؟
سلویہ نے بہرام کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
ہاہ ہ ہ ہ !
“ویسے تو یہ شوہر کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو چھپا کر رکھتا ہے اور اگر اس پہ شک کرتا ہو تو اس پر ہزاروں پابندیاں بھی لگاتا ہے لیکن یقین کرو یار میں ایسا شوہر بننا نہیں چاہتا ہوں ۔”
بہرام نے آئس کریم کا کپ سلویہ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ۔
“ہاں مگر اس بات کا بھی تو خیال رکھیں کہ میری بھی خواہشات ہیں ۔”
سلویہ نے اپنی بات کو منوانے پر اصرار کیا ۔
اففففففف!
“اچھا شادی کے بعد سوچیں گے اس بارے میں ابھی فلحال ماموں کو ڈیٹ فکس کرنے دو۔”
بہرام نے جان چھڑواتے ہوئے کہا ۔
بہرام سلویہ کی پھوپھو کا بیٹا تھا ان دونوں کی رضامندی سے ایک سال پہلے ہی منگنی طے ہوئی تھی بہرام سلویہ کو بے پناہ چاہتا تھا یہاں تک کہ وہ سلویہ کے اصرار پر USA سے پاکستان شفٹ ہو گیا تھا اور اپنا سارا کاروبار بھی یہیں سیٹ کر لیا تھا اور یہ سب صرف سلویہ کی خواہشات پر کیا گیا تھا ۔
سلویہ شوخ، خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی بھی تھی وہ اپنے انداز کی بہت منفرد تھی اور اپنے کپڑے عبایا، میک اپ اور فیشن ہر چیز کا بہت خیال رکھتی تھی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس نے دینی تعلیم میں خوب انٹرسٹ لیا ہوا تھا دینی دوستوں اور ماحول کی وجہ سے سلویہ اسلامی تہذیب کی پاسدار تھی اسی بنا پر شادی سے پہلے ہی بہرام سے پردہ کرنے کی خواہش کا اظہار کردیا تھا۔
” بہرام۔۔!!!!
آپ میری بات کو سیریس نہیں لے رہے ہیں میں سچ میں پردے کی خواہش رکھتی ہوں اور اگر مجھے اس کے لیے کسی کے خلاف بھی جانا پڑے تو میں جاؤں گی ۔”
سلویہ سنجیدگی سے کہنے لگی۔
کیا ضد لگالی ہے یار تم نے۔۔۔
“اچھا پھر یہ بتاو میں تمہارا اپنے دوستوں میں کیسے introduce کرواوں گا ۔ سعد کی wife دیکھی ہے تم نے اس کا فیشن سینز کتنا اچھا ہے۔ ہر فیملی پارٹی میں فیضان کی wife کتنا تیار ہو کر آتیں ہے۔اگر تم پردہ کرتی ہو تو میں تو تمہیں ایسی پارٹیز میں لے کر بھی نہ جاوں گا یار۔
بہرام خود جیسے الجھ گیا تھا۔ اس نے سلویہ کو بہت سمجھایا مگر سلویہ ضد میں اڑ گی تھی۔
اپنے دوستوں کی بیویوں سے مجھے متاثر نہ کروائیں ۔
میں نے لوگوں سے متاثر ہونا چھوڑ دیا کیونکہ لوگ وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں ۔دوسروں کے حالات ہمیں اور دوسروں کو ہمارے حالات ہمیشہ اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔ہو سکتا ہے آپ کے دوست بھی شو اف کروانا چاہتے ہو اور پردہ کرنا کوئی شرم کی بات تو نہیں ہے کہ جس کے بعد آپ مجھے انٹروڈیوس نہیں کر پائیں گے میں اپنی پہچان بنانا چاہتی ہوں اپ میرا انٹروڈیوس سر اٹھا کر کروا پائیں آپ کو بھی تو ثواب ملے گا بیکار ہے وہ لمبی زندگی جو اعمال حسنہ کی پونجی سے محروم ہو ۔”
سلویہ کا اصرار حد سے زیادہ بڑھ چکا تھا۔
” اچھا اور ماما ؟
تم جانتی ہو نا کہ میرے گھر میں کوئی بھی پردہ نہیں کرتا ہے۔ نہ میری بہنیں اور نہ ہی میری ماں تو تم کیسے ایڈجسٹ کر پاؤ گی ان سب کے درمیان ۔میرے گھر کا ماحول خراب ہوجائے گا۔ اچھا ہوگا کہ اپنی ضد چھوڑ دو ۔”
“بہترین عمل وہ ہے جس کے لیے ہمیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے . اگر آپ میرا ساتھ دیں تو ہو سکتا ہے کہ گھر کا ماحول بدل جائے کسی کو تو قدم اٹھانا ہی پڑے گا نا ۔”
بہرام کا فیصلہ سننے کے لیے سلویہ کی انکھوں میں بے تابی تھی مجبور انکھوں سے بہرام کی جانب دیکھنے لگی
بہرام نے اس کی انکھوں میں دیکھا تو وہ بھی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو گیا۔
” اچھا ٹھیک ہے آخر اللہ کے حکم کے آگے میں کیا ہی کر سکتا ہوں. اور پھر تمہاری خواہش ہے تو ٹھیک ہے میں سب کو راضی کر لوں گا اور اگر کوئی راضی نہیں ہوتا تو مجھے فرق نہیں پڑتا ۔ مگر وعدہ کرو کہ تمہاری یہ خواہش تمہارا گھر خراب نہیں کرے گی”
سلویہ دھیرے سے مسکرائی اور پھر کھلکھلا کے مسکرانے لگی ۔
“میں وعدہ کرتی کہ میرا پردہ میری ذمہ داری ہوگا اس سے گھر کا ماحول خراب نہیں ہونے دوں گی”
“ٹھیک ہے تمہاری خواہش ہے تو تم کرو تمہیں کوئی نہیں روک سکتا یہاں تک کہ میں بھی نہیں”۔
بہرام نے محبت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
“یعنی میرا حجاب میری مرضی۔؟
بہرام نے سلویہ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر کہا :
“جی ! آپ کی مرض۔