کاش میں دورپیغمبرمیں اٹھایاجاتا

ہر مومن کی یہ آرزو ہوتی ہےکہ اسےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کازمانہ نصیب ہوتا۔کاش میں دورپیغمبرمیں اٹھایاجاتا۔میرےدل میں فطری طورپریہ آرزو اکثرابھرتی ہےاوربہت بےقرآری کاباعث بن جاتی ہے۔

لیکن پھرجب آپکےصحابہ کی ایثاروقربانی اورفدا کاری وجاں نثاری کاخیال آتاہےتواپناآپ بہت ہی چھوٹامحسوس ہونےلگتاہےاوراپنی زرپرستی اور سستی وکاہلی دیکھ کریہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہےکہ یہ بدبخت اس دورسعادت میں پائی بھی جاتی توآپکےقریبی ساتھیوں کےتوقدموں کی خاک بھی نہ بن پاتی۔

مکی زندگی میں مسلمان ہرطرح کےخطرات میں گھرےہوئےتھے۔انکی جان ومال اورعزت وآبروقطعاغیرمحفوظ تھی۔جوبھی اسلام قبول کرتااسکےاپنے ہی سب سےبڑھ کراذیتیں دینےلگ جاتےاورہرقسم کےمصائب وآلام اسکااستقبال کرتے۔ جب ہجرت کامرحلہ آیاتومہاجرین اپناگھربار،اہل وعیال،کاروباراورکنبہ وقبیلہ غرض سب کچھ چھوڑ کرگھروں سےنکلےہجرت کےپرخطرمرحلےمیں کس طرح سیدہ اسماء نےاپنےعظیم باپ کی پشت پناہی کی،جب جناب ابوبکراپنےمحترم رفیق ہی کےلیے ساری جمع پونجی لےکرچل دیےاورپیچھےوالوں کےلیےکچھ نہ چھوڑاسیدہ اسماءنےکس ثابت قدمی سےبوڑھےداداکوتسلی دی۔کیامیں بھی اپنےمردوں کو بھیج سکتی کہ نبی کریم کاساتھ دیں ہماری فکرنہ کریں؟کیاگھرکاسارامال یاآدھایاتہائی چوتھائی میں بھی پیش کرنےکاحوصلہ رکھتی؟۔

پھرانصارنےجس ایثاروبھائی چارےکاثبوت دیایہاں توچارمہمان بھی بھاری ہیں۔پھرجب معرکہ بدردرپیش تھانبی کریم ﷺکےحکم پردیوانہ وارلپکے۔اپنی جانوں کوہرطرح کےخطرات میں ڈالنےکےلیےآمادہ ہوگئے۔یہودومنافقین نےکس کس طرح ڈرایانہ ہوگا۔اس مہم جوئی سےروکنےکےلیےکیاکیاباتیں بنائیں نہ ہونگیں۔جان ہتھیلی پررکھناتوبہت بڑی بات ہےمیں توتھوڑاسامذاق برداشت کرنےکےبھی قابل نہیں۔

جب تنہائی میں بیٹھ کرمہاجرین وانصارکےان عظیم کارناموں کےمتعلق سوچتی ہوں تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہےکہ نبی کریم ﷺ کےبلندترین اسوےکےساتھ نباہ کرنےکےلیےجو بلندیءکردار مطلوب تھی میں تواسکےہزارویں حصےسےبھی محروم ہوں۔میرےجوحالات ہیں کچھ بھی بعید نہیں کہ سعیدلوگوں کی بجائےشقی گروہ میں جا شامل ہوتی۔میرےرب نےمیری لاج رکھی اورمجھے اس مشکل ترین امتحانات سےدوچارنہ کیا۔

ایک سعادت سےتومیں محروم رہی لیکن دوسری سعادت کےلیےموقع ابھی باقی ہے۔آج بھی تواحکام دین کامذاق سرعام کیاجارہاہے۔آج بھی توصراط مستقیم پرچلنےکےلیےایثاروقربانی مطلوب ہے۔اگر میں اس موقعےسےفائدہ اٹھاپائی،اپنےاعمال کو سنوارکراپنےرب کی قربت کسی بھی درجےمیں حاصل کرپائی توپھرموت کےبعدیقیناًنبی کریم ﷺکا ساتھ نصیب ہوگاآپﷺ  کی محفلوں میں حاضری ممکن ہوگی۔توپھرآج ہی سےکیوں نہ توبہ کرکےاللہ کی طرف دوڑلگادوں شایدمنزل مل ہی جائے٠٠٠٠ آج امت نےقرآن وسنت کوترک کردیاہے۔آج اقامت دین کےلیےجدوجہدکرنےوالوں کواحمق سمجھا جارہاہے۔اگرمیں اس قلیل گروہ میں شامل ہوجاوں

 جوکتاب وسنت کی اطاعت ہی کوشعاربنائےہوئےہیں تویقیناًرزوقیامت نبی کریمﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی اورآپﷺ  خوش ہوکرفرمائیں گےکہ جب لوگ دین سےغافل تھے،جب احکام الٰہی پرعمل انتہائی مشکل بنادیاگیاتھااس دورابتلاء میں یہ چندامتی کتاب وسنت کومضبوط تھامےہوئےتھے۔اگر آج میں اس برحق گروہ میں شامل ہوکرہرطرح سے تعاون کرنےکی کوشش کروں گی تویقیناًمیری سعی قابل قدرٹھہرےگی۔