آبرو مندانہ موت یا ذلت بھری زندگی

اس فلائیٹ ٹرینر کی تیز چمک دار آنکھیں اس بھولے بھالے سے فلائنگ کیڈٹ پر جم گئیں۔پی اے ایف کی اکیڈمی میں کیڈٹس کے اساتذہ ہر وقت تربیت کے ذمہ دار تھے۔۔نوجوان نے گڑبڑا کر دوبارہ اپنا جائزہ لیا۔۔ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔۔ ادھر ٹرینر اپنی نظروں کا رخ پھیر لیا۔

۔یہ نوجوان راشد منہاس تھا جو اے لیول کے بعد کراچی سے آیا تھا۔جہازوں کے متعلق اس کا علم وسیع تھا۔۔سر نے کلاس کو جب ماڈل جہاز بنانے کی اسائنمنٹ دی تو اس بظاہر نالائق سے نظر آنے والے نے نہ صرف جہاز کا ماڈل فورا بنا لیا بلکہ اپنے ساتھیوں کی مدد بھی کرتا رہا۔۔۔جب پریزینٹیشن کاوقت آیا تواس نے وہاں موجود ہر کیڈٹ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

وہ ٹرینر کسی مکڑی کی طرح اس کے گرد جال بن رہا تھا۔یہ ایک آسان ہدف ہو سکتا ہے۔اس ٹرینر نے اس کا سارا ریکارڈ نکال کر دیکھا۔بچے کی قابلیت میں کوئی شک نہیں تھا۔۔اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔۔بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔۔ مطلب۔۔حالات کے مطابق ڈھل جانے کی صلاحیت ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ سولو فلائیٹ میں کیسی کارکردگی دکھاتا ہے۔۔ابھی ذرا انتظار۔۔

وہ دیکھو!راشد کی محبوبہ پھر اسے تک رہی ہے،،۔۔پچھلی نشستوں سے ابھرنے والی آواز کو زاشد کے حساس کانوں نے اچھی طرح سن لیا تھا۔ہلکی سی ہنسی کی آوازیں آئیں جنہیں سر کی ڈانٹ نے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھا دیا ۔شریر کیڈٹس کو اللہ موقع دے۔۔انھوں نےفلائیٹ ٹرینر مطیع الرحمان کا نک نیم اچھا رکھا تھا۔۔لیکن یہ محبوبہ والہانہ انداز میں نہیں تکتی تھی بلکہ کسی سخت گیر استانی کی طرح گھورتی تھی۔۔راشد کو اس کی آنکھوں کی کیفیت کچھ الگ سی نظر آتی تھی۔۔دبادبا سا غصہ، سلگتی نفرت کے لپکے،قہر کے پھوٹتے شرارے اور انتقام کے جذبے کے ڈورے لیے وہ غلافی غلافی سی آنکھیں۔۔آخر میں نے اس کا کیا بگاڑا ہے جو یہ مجھے پزل کرتا رہتا ہے۔۔۔یا اسے میری شکل پر بڑا بڑا بے وقوف لکھا نظر آتا ہے۔۔۔کچھ تو ہے۔۔۔یہ بے سبب نہیں ہو سکتا۔۔۔اس کے اندر کا میکانزم جیسے کوئی الارم مسلسل بجا رہا تھا۔۔

کیا کوئی پریشانی ہے بیٹا!!؟ماں نے اس کی آنکھوں کی پریشانی بھانپ لی۔۔۔وہ ایک دم لیٹے سے چونکا۔۔غیر ارادی طور پر اس نے جیسےچہرے پر لکھی پریشانی ہاتھوں سے رگڑ کر مٹانے کی کوشش کی۔۔اس نے جیسے خود کو کوسا۔۔کیا وہ چھٹی پر والدین کو پریشانی دینے آیا ہے۔۔۔اپنے آپ کو کمپوز کیا۔۔اس نے جیسے ماں کوخفا سی نظروں سے دیکھا اور کہا۔۔”جب سے آیا ہوں تب سے کچن میں گھسی ہیں۔۔۔ایک ہفتے میں کتنا موٹا تازہ کرنا ہے مجھے؟؟؟؟،،،۔۔۔””اچھا!! اب ماں کو بناؤ گے،،۔۔وہ ہنس دیں۔۔۔یہ مائیں کتنی جلدی بہل جاتی ہیں۔۔۔بہن بھائیوں کے سارے کام دیکھے۔۔کسی کو سمجھایا،کسی کے ساتھ مل کر کام کیا۔۔۔چھوٹے بھائی انجم کو کتابوں کے سیٹ گفٹ کیے۔۔۔میڈلز سے بھری الماری سیٹ کی۔۔اتنے میں خالو جان ملنے آ گئے۔۔وہ ہنس کر بولے””راشد یار!!کچھ میڈلز مجھ سے بھی لے لے،،اس نے اعتماد سےان کو مسکرا کر دیکھا اور بولا” “”Thank you sir!I want my own

madels’…خالو جان کو یہ انداز بہت پسند آیا۔وہ سب کو اس کا جواب سنا سنا کر محظوظ کرتے رہے۔۔۔

وہ اپنی پہلی سولو فلائیٹ کے امتحان میں نہ صرف پورا اترا تھا بلکہ ائیر فورس کے اساتذہ کو اس کی شکل میں ایک نیا اور بہتر ورژن نظر آرہا تھا۔۔۔سب اساتذہ بہت خوش تھے۔۔بہت خوش۔۔ادھر گھر والے بھی بہت مسرور تھے۔۔۔

۔وہ ان چھٹیوں میں گھر کا بہت سارا کام نمٹا دینا چاہتا تھا۔۔۔پتہ نہیں کیوں۔۔۔ادھر ماں کی آنکھوں کے گوشے بھیگتے رہے۔۔

 20اگست 1971۔ کاوہ دن عام سے انداز میں طلوع ہوا۔۔آج اس کی دوسری سولو فلائیٹ تھی اور لمبے فاصلے پر جانا تھا۔۔۔وہ فلائیٹ کی بریفنگ لینے پہنچا تو پتہ چلا کہ موسم خراب ہے۔۔وہ پلٹ آیا اور بٹلر سے دوبارہ ناشتہ گرم کرکے لانے کو کہا تودوبارہ حکم آیا کہ آپ فلائیٹ کی تیاری پکڑ لیں ۔۔۔وہ اپنا گرم گرم ناشتہ ادھورا چھوڑ کراٹھ گیا۔۔نکلتے نکلتے دو گلاب جامن منہ میں ڈالیں اور جلدی سے سوفٹ ڈرنک کے بڑے بڑے گھونٹ بھرے ۔۔۔وہ اپنی منزل کو روانہ ہوا۔۔۔

جس جہاز میں راشد اپنی دوسری آڑان بھر رہا تھا ،یہ ٹی تھرٹی تھا۔۔ اسےجہاز روکنا پڑا۔۔اس کا انسٹرکٹر اسے رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔اس نے اسے اپنی دانست میں بےہوش اور زخمی کر کے جہاز خود سنبھال لیا ۔۔۔اپنے غیر ملکی آقاؤں کو اپنی وفاداری اور جاںنثاری کا یقین دلانے لگا۔۔راشد کے پاس دو آپشن تھے۔۔آبرو مندانہ موت یا ذلت بھری زندگی۔۔اس نے شہادت کو چنا۔۔ایک غدار وطن قرار پایا تو دوسرا وطن کا محسن مانا گیا۔۔۔

زندگی کے ہر مرحلے پر دو آپشن ہوتے ہیں۔۔آپ کا انتخاب آپ کا انجام طے کرتا ہے۔