“امی جلدی سے میرے بالوں کی فرنچ چوٹی بنا دیں”، دعا نے اپنی امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو دعا کے لیے ناشتہ بنا رہی تھیں۔ جلدی جلدی کافی کا مگ اور ابلے انڈے دعا کو دیے اور اسکے بال بنانا شروع کر دیے۔
“دعا جب تمھیں پتا ہے کہ تمھاری چوٹی بنانے میں وقت لگتا ہے تو جلدی تیار ہوکر آیا کرو اپنے کمرے سے”۔
دعا کے بال اسکی پوری شخصیت کا خاص حصہ تھے کیونکہ اسکے بال انتہائی لمبے گھٹنوں تک آتے تھے اور ایسا ممکن نہ تھا کہ کوئی دعا سے ملے اور اسکی نظر دعا کی خوبصورت کالی روپنزل جیسی لمبی فرنچ چوٹیا پر نہ پڑے۔
دعا نے جلدی سے انڈے کھاکر، کافی کا مگ ہاتھ میں اٹھایا، اپنی چوٹیا کو کمر سے اٹھا کر آگے ڈالا اور کمر پر اپنا کالج بیگ لٹکایا، جوگرز پہن کر گھر سے نکل گئی۔ دعا کے گھر کا پچھلا دروازہ ایک پتلی گلی کی طرف کھلتا تھا جہاں دونوں طرف گھروں کے ساتھ ساتھ تازہ ہرے رنگ کی انگور کی بیلیں آخر تک چل رہی تھیں۔ دعا بھاگتے ہوئے بس اسٹاپ کی طرف رواں دواں تھی۔
دعا اپنے امی ابو اور تین بہن بھائیوں کے ساتھ جرمنی کے خوبصورت شہر Lubeck میں رہتی تھی۔ محمد احمد صاحب اور انکی بیگم نے معاشی اور ملکی حالات کے پیش نظر 2012 میں جرمنی ہجرت کی تھی۔ جب دعا صرف دس برس کی تھی۔ اس تمام عرصے میں احمد صاحب اور ان کی بیگم نے اپنی استطاعت کے مطابق ،اس جنت جیسے دارالکفر میں اپنی اسلامی شناخت کی حفاظت کی۔ دعا نے بھی اسی شناخت کے ساتھ اپنے آس پاس کے ماحول میں گھولنے ملنے کی کوشش کی اور اپنی ہنس مکھ اور ذندہ دلی کے باعث وہ اس میں کامیاب بھی رہی۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ کچھ سوالات اسکے ذہن کے خالی گوشوں میں گونجتے تھے۔۔اسکی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟کیا وہ صحیح سمت چل رہی ہے ؟اسے ایک خالی پن کا احساس سا کیوں ہے ؟ جیسے وہ شاید کچھ جاننا چاہتی ہے۔
بس میں بیٹھنے کے بعد جب اسکی سانسیں بحال ہوئی تو آہستہ آہستہ اس نے اپنی کافی کے گھونٹ پینے شروع کئے ۔اسکے کانوں میں ہیڈ فون لگے تھے اور موبائل کی پلے لسٹ میں Lieblingsmensch چل رہا تھا ۔ بس کی کھڑکی سے صبح کے چڑھتے سورج کی روشنی میں Lubeck کی خوبصورت اینٹوں سے بنی گوتھک طرزتعمیر کی عمارتیں کسی افسانوی جگہ کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ دعا باہر کے ان نظاروں میں کھوئی ہوئے تھی مگر اندر اسکے دماغ میں وہ ہی سوال گونج رہے تھے ۔اخر کیا تلاش کر رہی تھی وہ؟کیسی پہچان کی تلاش تھی اسے؟کیا کمی تھی اسکی اپنی شناخت میں؟۔ کسی فیری ٹیل فلم کی طرح چلتے نظارے اچانک روک گئے ۔بس کا دروازہ کھولا، ایک قدرے چھوٹے قدکی، تھوڑی جوان سی دیکھتی خاتون بس میں چڑھیں۔
“کیا میں یہاں بیٹھ جاؤ ؟”، خاتون نے دعا سے پوچھا ۔ دعا نے کانوں سے ہیڈ فون ہٹا کر، مسکراہٹ کے ساتھ انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ دعا انہی نظریں بھر کر دیکھنا چاہتی تھی ۔ کتنی باوقار اور جاذب نظر شخصیت تھی انکی جیسے ایک مکمل شخصیت ہو۔مناسب جسامت ،ہلکے شہد کی سی رنگت، بڑی آنکھیں، خوبصورت بھرے ہونٹوں پر ہلکی گلابی کافی سے رنگ کی لپ اسٹک اور سر پر خوبصورتی اور نفاست سے لیا ہوا حجاب ۔عمر میں یہ ہی کوئی اڑھتس یا انتالیس سال کی ہوںگی ۔ دونوں کا تعارف ہوا ۔وہ ۔نمل تھیں اور کچھ عرصہ پہلے ہی مصر سے جرمنی آ ئیں تھیں۔
دعا، نمل کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئی کہ سارا دن بار بار اسکا ذہن نمل اور انکی شخصیت کی طرف گھومتا رہا ۔آخر کیا تھا ان کے اندر جو انہیں اتنا باوقار اور مکمل بنا رہا تھا ۔ رات کو اپنے بستر پر لیٹے ہوئے بھی وہ نمل کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کیسے ایک چھوٹی سی ملاقات نے اسکے مزاج پر اتنا اچھا اثر چھوڑا۔
صبح تیار ہوتے ہوئے آ ئینہ میں دیکھ کر ایک دم دعا کے ذہن میں یہ خیال بجلی کی طرح کوندا ،”نمل نے حجاب کیا ہوا تھا” یہی تو وہ پہچان ہے۔ یہ ہی تو وہ رنگ ہے، ایک مومن عورت کا۔ تبھی تو وہ اتنی مکمل اور باوقار لگ رہی تھی ۔اور یہ ہی تو وہ کمی ہےاس کے اندر۔
بس اگلے کئی دن اسی کشمکش ،الجھن میں گزرے ۔ کئی سوال تھے دعا کے دماغ میں۔کیا حجاب ایک مومن عورت کے لئے ضروری ہے ؟کیا یہ صرف عورت کی اپنی پسند نا پسند پے منحصر ہے ؟ یا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟ اور کہاں لکھا ہے؟ اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہیں تو پھر یہ ذہنی کشمکش کیسی؟ اللہ کی بات ماننے میں رکاوٹ کیسی ؟ کیا یہ رکاوٹ ہمارا اپنا نفس ہی تو نہیں ۔ حجاب کروں گی تو میری شخصیت کا یہ خوبصورت حصہ جو میرے انوکھے لمبے بال ہیں وہ چھپ جائے گے،جن کی لوگ اتنی پزیرائی کرتے ہیں، کیا لوگ میرا مذاق اڑائیں گے؟کیا مجھے جاہل پرانے خیالات کی قدامت پسند انسان بلایا جائے گا؟ کیا لوگ مجھ پر طنز کرے گے؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے دھمکیاں دیں.کیا جرمنی میں میری جان کو خطرہ ہوگا؟ کیا میرے دوست مجھے چھوڑ دیں گے؟کیا میں اپنے سماجی حلقے میں تنہا رہ جاؤں گی۔
دعا اپنے گھر اور جمعہ کی نماز اپنے علاقے کی مسجد میں اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کرتی کہ اللہ اسے وہ ہمت دیں کہ وہ اپنا سچا رنگ اپنا سکے۔مسجد میں جب اسکی ملاقات حجابی خواتین سے ہوتی تو اسے ہمت بھی ملتی مگر پھر نجانے کیوں وہ کوئی قدم نہ اٹھا پاتی۔ دعا کو یہ بات سمجھ آرہی تھی کہ اللہ نے انسان کو حسن تقویم بنا یا ہے مگر وہ خود ہی اس راستے کو چھوڑ کر اسفل السافلین بننا چاہتا ہے ۔اسکو سمجھ آ رہا تھا کہ حیا ہی انسانیت کی معراج ہے ۔
جمعہ کا دن تھا بیگم احمد کسی سے فون پر باتیں کرتی ہوئی بہت خوش ہو رہی تھی ۔ فون رکھ کر انہوں نے سب کو بتایا کہ دو دن بعد انکی چھوٹی بہن پاکستان سے جرمنی آرہی ہیں۔
دعا اپنی خالہ سے ملاقات کے لئے منتظر تھی۔ جرمنی آنے کے بعد یہ اسکی اپنی خالہ سے پہلی ملاقات تھی ۔سب لوگ بڑی گرمجوشی سے ایک دوسرے سے ملے ۔ گھر پہ بیگم احمد نے بڑے شاندار ڈنر کا اہتمام کیا ہوا تھا ۔کچھ اور عزیز مرد وخواتین بھی کھانے پر مدعو تھے ۔
سب مرد و زن ہنسی مذاق میں مشغول تھے اور دعا اس سارے وقت میں وہاں موجود خواتین کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔ اسے کسی کی بھی شخصیت مکمل اور باوقار نہیں لگ رہی تھی ،نمل کی طرح ۔خاص طور پر اسے اپنی خالہ پہ تو بہت حیرت ہورہی تھی ۔وہ پاکستان سے آ ئی تھیں مگر نہ سر پہ حجاب نہ لباس میں حیا۔بہت چست بغیر آستین کا لباس پہنا ہوا تھا انھوں نے ۔
سب مہمانوں کے رخصت ہو جانے کے بعد دعا نے بھاری قدموں اور اداس دل کے ساتھ کھانے کے برتن سمیٹے ۔احمد صاحب اور بچے سو چکے تھے اور بیگم احمد اپنی بہن کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔دعا انکے اور اپنے لئے چائے بنالائی۔ دونوں بہنیں اپنی باتوں میں مشغول تھی اور دعا اپنے خیالات میں گم۔آخر اس سے نہ رہا گیا اور اس نے اپنی خالہ کو مخاطب کیا۔
“خالہ جانی میں کئی دنوں سے کسی جستجو میں تھی،اپنے اصلی رنگ کی پہچان چاہتی تھی ،اپنی شخصیت کا نامکمل جز ڈھونڈنے کی کوشش کررہی تھی ۔پھر مجھے پتا چلا کہ میرا اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے۔یہ تو صبغتہ اللہ ہے اور اس رنگ سے بہتر کونسا رنگ ہوسکتا ہے ۔میں تو جرمن معاشرے میں رہنے کی وجہ سے ہمت نہیں کر پارہی تھی مگر آپ کو دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہورہی ہے ۔آپ تو ایک مسلمان ملک سے آئی ہیں، آپ بغیر حجاب کے کیسے ہیں ؟آپ کیسے اللہ کے الفاظ کو ردکر سکتیں ہیں ؟۔۔۔پاکستان میں تو کوئی آپکو گھورتا نہیں ہے ،کوئی دھمکی نہیں دیتا ،نہ آپکو وہاں جان کا خطرہ ہے تو پھر اتنی سادہ سی چیز کیوں نہیں سمجھ پارہی یا سمجھنا ہی نہیں چاہتیں ۔آپ تو ان لوگوں کے ساتھ رہتی ہیں جو اللہ اور اسکے رسول پہ ایمان رکھتے ہیں ۔کیا آپ شرمندہ ہیں اپنے مسلمان ہونے پر۔۔۔اگر نہیں تو پھر یہ الجھن کیسی ، یہ رکاوٹ کیسی،یہ جھجک کیسی۔کاش اللہ ہم سب کو وہ ہمت اور طاقت دے کہ ہم ایک بہادر مسلمان کی طرح رہ سکیں اور فخر کے ساتھ اپنا سچا رنگ پہچان سکیں۔
یہ ساری باتیں کہہ کر دعا تو اپنے کمرے میں چلی گئی اور کسی اور کو ہمت ملے یا نہ ملے مگر دعا کو ضرور ہمت مل گئی اور اپنے سارے سوالات کا جواب بھی اسنے خود ہی دے دیا ۔
صبح جب دعا اپنی یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو کر کمرے سے نکلی تو اسنے سر پر حجاب پہنا ہوا تھا ۔اسکے لمبے بال پوری طرح حجاب کے اندر چھپے ہوئے تھے ۔
کلاس میں سب اسکو غور سے دیکھ رہے تھے ۔ آ خرکار کلاس ختم ہو نے پر اسکے ایک کلاس فیلو نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ ،”آج تم مختلف لگ رہی ہو”.
دعا مسکرائی اور جواب دیا ،” ہاں! میں نے اپنے سچے رنگوں کو پا لیا ہے جو قوس قزح کی طرح بہت خوبصورت ہیں اور ان خوبصورت رنگوں کے ساتھ میں اپنے راستے پر گامزن ہوں ،حسن تقویم بننے کے لیے ۔”