سمو لیجئے سب ہمارے ہیں!
اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُؕ
ترجمہ: آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور احسن طریقہ کے ساتھ ان پر حجت قائم کیجیے۔
بیشک یہ ہرانسان کا حق ہے اور یہ دعوت صبر کے بغیر ممکن نہیں کہ حق پر مضبوط رہنے اور حق پہنچاتے رہنے کے لیئے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا پڑتا ہے
اجتماعیت میں منصوبہ بندی کے اہداف کے حصول اور ’’دعوت حق‘‘ کی کسی بھی حکمت عملی کو لے کر چلنے اور کامیابی کے لیئے سمع و اطاعت لازم ہے۔
انقلابات طوفان کی طرح ہوتے ہیں جس طرف کا رخ کرلیں منظر نامہ تبدیل کرتے ہیں لیکن وہ عوام کی حمایت ہی کی صورت آتے اہم بات یہ ہے کہ پیش نظر کیا ہے کس طرف اس ریلے کو لے کر چلنا ہے رہنمائی کرنے والے کا نصب العین و مقصد کیا ہے ،پھر تیزی سے بہتا ہوا ریلہ رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کرتا راہ میں آنے والی ہر چیز بہائے لیا چلا جاتا ہے ،سو تبدیلی لانی ہو تو عوام کو ساتھ ملانا ناگزیر ہے ان کو شعور دینا ، سوچنے،بولنے،اور عمل کرنے میں تبدیلی ساتھ ملا کر لائی جائے تو پائیدار ہوگی آخر کل ان ہی کو اس نظام کو لے کر چلتے رہنا ہے ایسی تبدیلی جو ساتھ ساتھ ذہن سازی کرتی جائے وقتی تبدیلی نہیں ہوتی جس نظام کو جن لوگوں میں چلنا ہے ان عوام کو ساتھ ملانا ہوگا
کل کے ایمان لائے ہوئے بدو،سادہ لوح مسلمان،بس ابھی کلمہ پڑھ کے مسلمانوں کی صف میں کھڑے ہوجاتےاور عظیم المرتبت صحابہ کے درمیان تربیت پاتے
اسلام کا پیغام تو ہے ہی عالمگیر پیغام ساتھ آنے والے کو خود سے علیحدہ کرکے ہٹایا نہیں جاتا بلکہ دلسوزی و دردمندی کے ساتھ تربیت کا عمل شروع کردیا جاتا ہے۔ یہ مصنوعی عمل نہیں ہے بلکہ یہ خیرخواہی کا معاملہ ہے کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے پیچھے ہنانا اور بچائے چلے جانا سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہے
اکیلے چلنا بھی کیا کمال ہوا
بڑے پیمانے پر دعوت پھیلے گی تو عوام ساتھ آئیں گے
کیا یہی نہیں کرنا ،بے شک یہی کرنا ہے انسانوں کو کتاب اللہ کے گرد جمع کرنا ہے
ہماری نیتیں اور دعائیں کمک پہنچاتی رہیں گی
اجتماعیت پر رب العالمین کا ہاتھ ہے یہاں بھروسے اور محنت دونوں شامل ہوں گی اللہ تعالیٰ اپنے نام پر اٹھنے والے تحریک کی سرپرستی کریں گے ان شاءاللہ ،یوں بھی استعانت الہی کے بغیر اس راستے پر قدم اٹھانا خود اپنے لیئے بھی ممکن نہیں اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام اللہ کے حکم و مرضی کے بغیر ناممکن ہے ،مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ہم اس کے کنبے کے لیئے بھاگ دوڑ کریں گے تو وہ یقیناً اپنی رضا کے ساتھ مددگار ہوگا۔
اجتماعیت اور اس میں سمع و اطاعت و کا نظام برکتوں و عافیت کا موجب ہوتا ہے ،نظم پر بھروسہ ،قدم سے قدم ملا کر چلنا اجتماعی قوت ظاہر کرتا۔۔۔ دلوں پر رعب طاری ہوتے ہیں مزاج و معاملات اس جانب راغب ہونا شروع ہوتے ہیں۔۔گھر گھر دستک دینا انہیں ہمنوا بنانا ہماری خواہش رہی ہے اورطویل عرصے سے یہی کام چل رہے ہیں ،یہ رابطہ عوام مہم اسی کی کڑی ہے
ایک انسان دوسرے انسانوں کے دلوں میں ایمان نہیں ڈال سکتا عمل نہیں کرواسکتا
داعی کا کام صرف دعوت دینا ہے پیغام پہنچانا ہے
وما علینا الاالبلاغ المبین
باقی سب تو رب کے ذمہ ہے
ہمیں صرف مضبوط کھڑا ہونا ہے،بریشم کی طرح نرم ہونا ہے ،محبت فاتح عالم ،
اصول،نصب العین مستحکم ہیں اب اپنے ارادے و شخصیت مضبوط رکھنا ہے کہ امتحان تو ہمارا ہے ہم تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں اللہ نے ذمہ داری کے محاذ پر کھڑا کیا ہے کب تک ٹھنڈے پیٹوں چلتے رہیں گے ہلچل اور تحریک تو ہماری زندگیوں میں پیدا ہونی چاہیئے آنے والوں کو چنتے جائیں سنبھالتے جائیں محبت و حکمت کی ضرورت بھی پڑے گی رہنمائی اور تحریکیت لانے سے لے کر استقامت کے ساتھ کھڑا کرنے کے لیئے پہلے والوں کو ستون بننا ہوگا سہارا دینا ہوگا
اپنی بھی جانچ ہونا ہے مطالعہ لٹریچر پر کہاں کھڑے ہیں ،قران و حدیث کا علم فہم اب تک کتنا جذب ہوا کتنا بنیادوں میں شامل ہے کس قدر قابل تقلید بنے نظم و ضبط کی کس قدر پابندی ہے ترجیحات کے تعین کیا؟ اور زندگی اب تک ترتیب دی کہ نہیں میری تحریکی کاموں کی دلچسپی کم از کم میرے ذاتی کاموں کی دلچسپی تک پہنچی بھی ہے یا نہیں ،اب وقت آگیا ہے۔
خود تڑپنا ہی نہیں آوروں کو تڑپانا بھی ہے
قیادت کی مستقل اور متواتر جدوجہد عوام تک تعارف پہنچانے سے لے کر ہمنوا بنانے تک ایک خیر خواہی اور بے غرضی کا لمبا سفر ہے پلاننگ کوشش اور عمل، عوام کی خدمت ،ان کے مسائل پر آواز اٹھانا انہیں یہ احساس دلانا کہ وہ اکیلے نہیں ان کے گھروں کی پریشانیوں کو لے کر حکومت وقت کو جھنجوڑ ڈالنا پھر انہیں جمع کرکے نظام الہی کے قیام کی راہ ہموار کرنا راستوں کے نشان ہیں۔ یہ لمبا سفر ہے اس راہ میں آئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا ہوگا انہیں درست بھی کرنا ہوگا اپنے ساتھ تزئین و ترتیب سے لگانا بھی ہوگا
امتحان تو ہمارا شروع ہے یکسوئی کے ساتھ نظم و قیادت پر بھروسہ کرکے کمر کس لیں ،اجتماعیت کے دائرے میں شامل ہونے والوں کی تربیت و تزکیہ کرنا دو دن کا کام نہیں نہ فوری نتائج دے سکتا ہے ناگوار اور نا مساعد دونوں ممکنات ہیں۔انسانوں کی شخصیت کی تعمیر وقت اور قربانیاں چاہتا ہے ،اخلاص و دعائیں
و نالے افلاک سے رحمت کا سوال کرتے ہیں اور پھر جواب بھی آتے ہیں ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کی خواہش عوام کی خواہش جب تک نہیں بنے گی اجتماعی درستگی ممکن نہیں ،صرف نظام کو لانے کے لیئے نہیں بلکہ نظام کو قائم رکھنے کے لیئے عوامی تربیت و حمایت لازم ہے
بھروسہ رکھیئے !
ان شاءاللہ ممبر بنیں گے تو طاقت بھی بنیں گے
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے کا