بلوچستان، جو اپنی تاریخ، ثقافت، اور جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے، آج ایک سنگین بحران سے دوچار ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بنا کر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف صوبے کے امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی تشویش کا باعث ہے۔
کسی بھی قوم کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار ہمیشہ سے مرکزی رہا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی ملک نے ترقی کی منازل طے کیں، اس کے پیچھے نوجوانوں کی محنت، ذہانت اور قربانی کا بڑا ہاتھ تھا۔ نوجوان کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں اور معاشرتی تبدیلیوں کے لیے محرک ثابت ہوتے ہیں۔ اسی لیے دشمن عناصر اور دہشت گرد تنظیمیں اب نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنا رہی ہیں تاکہ انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں، اور اس کے پیچھے دشمن ممالک کی پراسرار سازشیں اور منظم منصوبہ بندی ہے۔دہشت گرد تنظیموں نے نوجوانوں کے لیے جھوٹے خواب تخلیق کیے ہیں، جن میں بیرون ملک اعلیٰ تعلیم، ملازمت، اور نیشنلٹی کے مواقع شامل ہیں۔ ان خوابوں کے پیچھے چھپی حقیقت نہایت خوفناک ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث زیادہ تر افراد جدید تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں اس حد تک جذباتی بناتی ہیں کہ وہ اپنے ہی ملک اور قوم کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔
بلوچستان میں شدت پسند تنظیموں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تنظیمیں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہدف بناتی ہیں۔ نوجوان، جو اپنی جوانی کے جوش اور جذباتیت کے باعث جلدی متاثر ہو جاتے ہیں، ان تنظیموں کے جھوٹے وعدوں کا شکار ہو کر ان کی سازشوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو مسموم کیا جاتا ہے۔ ان کے اندر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے، اور انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے ذریعے قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ایک اہم پہلو جو دہشت گرد تنظیموں کی حکمت عملی کا حصہ ہے، وہ نوجوانوں کی نفسیات پر حملہ کرنا ہے۔ یہ تنظیمیں نوجوانوں کو جذباتی طور پر متاثر کرتی ہیں، ان کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوتی ہیں، اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کی برین واشنگ کا عمل اس قدر منظم ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس حد تک قائل کر دیتی ہیں کہ وہ اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے کو بھی ایک مذہبی فریضہ سمجھنے لگتے ہیں۔دہشت گرد تنظیموں نے اپنی حکمت عملی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے خواتین کو بھی شامل کرنا شروع کیا ہے۔
نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک اور حربہ جو استعمال کیا جا رہا ہے وہ ہے ”نارکو ٹیرر”۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس میں نوجوانوں کو بے خوف اور احساسات سے عاری کرنے کے لیے نشہ آور ادویات کا استعمال کرایا جاتا ہے۔ ان ادویات کی مدد سے نوجوانوں کے اندر کے انسانی احساسات کو ختم کر دیا جاتا ہے اور انہیں بے خوفی کے ساتھ خطرناک کارروائیوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی حالیہ صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں نے سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے منظم کوششیں کی ہیں۔
ان تنظیموں کا مقصد نہ صرف نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے بلکہ ان کے ذریعے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ تنظیمیں نہ صرف نوجوانوں کو برین واش کرتی ہیں بلکہ انہیں مالی امداد، بیرون ملک ملازمت اور تعلیم کے مواقع کے جھوٹے خواب دکھا کر اپنے جال میں پھنساتی ہیں۔یہ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ ان کے اندر بے حسی اور نفرت کے بیج بوتی ہیں۔ انہیں اس بات پر قائل کرتی ہیں کہ ان کی کارروائیاں ایک مقدس فریضہ ہیں۔ اس عمل میں یہ تنظیمیں نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان تنظیموں نے سینکڑوں نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کی ہیں۔
بلوچ طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیموں کا حصہ نہیں بننا چاہتے، لیکن انہیں مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کے سہولت کار انہیں بلیک میل کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ انکار کرتے ہیں تو انہیں اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر مار کر ان کی لاشوں کو پہاڑوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ ”مسنگ پرسن” ہیں اور ان کی گمشدگی کا الزام ریاستی اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔اس صورتِ حال میں والدین کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں۔