نوجوان دہشت گرد تنظیموں کا ہدف

کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح وشکست ،ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشی سطح کا ہو یا ملکی سطح کا،سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان ہو نوجوانوں کی شرکت ہر انقلاب میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت روزروشن کی مانند ہم پر عیاں ہوجاتی ہے کہ نوجوانوں ہی نے قوموں کی ڈوبتی نائو کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے،اور اس بات میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے نوجوانوں نے پوری دنیا کو اپنی خداداد صلاحیتوں اور بے پناہ ذہانت سے متاثر کیا ہے ۔اگر نوجوان قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں تو تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ عبور ہوسکتی ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کی بقاء کے لیے اتحاد ،تنظیم اور یقین محکم پر زور دیا ،اور یہ بھی واضح کیا کہ امن کے قیام میں نوجوان نسل کا کردار بے مثال ہوتا ہے۔آج یہی نوجوان دشمن ممالک اور دہشت گرد تنظیموں کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں جو انہیںبرین واشنگ کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں،آرمی چیف نے بہت بروقت اس مرض کی نشاندہی کردی ہے جس کے ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں اس لیے پورے ملک میں ایک کریش پروگرام کے تحت تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کے اس منظم حملے کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان اس وقت دہشت گردی کے سنگین مسئلے سے دوچار ہے ۔جو زیادہ تر دشمن ممالک کی جانب سے پھیلائی جارہی ہے جن میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز ،عام شہریوں اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ،ابتداء میں ان دہشت گرد تنظیموں نے مدارس کے غریب طلباء کو اپنا ہدف بنایا ،خاص طور پر ان مدارس میں طلبا ء پر توجہ دی گئی جو غریب علاقوں میں واقع ہیں اور بہت سے والدین اپنے بچوں کو ان مدارس میں اس لیے داخل کرادیتے ہیں کہ انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ روٹی بھی مفت حاصل ہوجائے گی ،ایسے غریب طلباء کو جنت میں جانے کے خواب دکھا کر دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال کیا جاتا رہا، لیکن جب سیکورٹی حکام کو یہ بات معلوم ہوئی کہ چند مدارس کے طلباء دہشت گردی میں ملوث ہیں تو تفتیش کا دائرہ وسیع کردیا۔اب دہشت گرد تنظیموں نے اپنی حکمت عملی بدل لی ہے اور یونیورسٹیوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں نے اپنے سہولت کاروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیم یافتہ نوجوانوں جن میں خواتین کی اکثریت شامل ہے ان کو بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم،روزگار،نیشنلٹی کے جھوٹے خواب دکھا کر، گمراہ کیاجس کا ثبوت بلوچستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی اکثریت جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔یہ دہشت گرد تنظیمیںایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعلیم یافتہ افراد کی برین واشنگ کرکے انہیں اس قدر جذباتی بنا دیتی ہیں کہ وہ اپنوں کا خون بہانے کو جہاد اور ثواب سمجھنے لگتے ہیں۔

دہشت گرد تنظیمیں ان نوجوانوں کو نفسیاتی طور پر کمزور کرکے انہیں بے خوف اور احساسات سے عاری کر دینے والی ادوایات بھی دیتی ہیں جسے طبی ماہرین ’’نارکو ٹیرر‘‘(Narcoterror)کہتے ہیں ۔ان دہشت گرد تنظیموں نے شاری بلوچ اور سمیعہ قلندرانی بلوچ جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا اور پھر انہیں خود کش بمبار بنادیا۔ان دہشت گردانہ کاروائیوں نے سیکڑوں زندگیا ں تباہ کردی ہیں ۔بلوچ طالب علموں کے مطابق وہ شدت پسند تنظیموں یا ان کی کاروائیوں کا حصہ نہیں بننا چاہتے ،تاہم دہشت گردوں کے سہولت کار انہیں مختلف طریقوں سے بلیک میل کرتے ہیں ۔انکار کرنے پر انہیں ا غواء کرلیا جاتا ہے اور پھر مار کر لاشوں کو پہاڑوں پر پھینک دیا جاتا ہے اورجس کا الزام ریاست پر لگا دیا جاتا ہے۔آج کے نوجوانوں کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اقبال کے شاہین بننا چاہتے ہیں یا دہشت گرد؟ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر خصوصی نظر رکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں اور بالخصوص موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے ۔اگر مستونگ آپریشن میں مارا جانے والا دہشت آصف نیچاری کے والدین اس کی حرکات وسکنات پر نظر رکھتے تو شاید انہیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ آصف نیچاری کے گھر والوں کے بقول وہ اپنے بیٹے کی سرگرمیوں سے ناواقف تھے۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے سیکڑوں نوجوانوں کو منفی پراپیگنڈے کے ذریعے گمراہ کرکے ریاست کا باغی بنایاپھران کے ہاتھوں سے قلم کو چھین کر بندوقیں تھمادیں۔

اس دہشت گردی نے ملک کو نقصان پہنچایا اورمعاشرے کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہوسکتی ہے جب ہمارے نوجوان یہ فیصلہ کرلیں کہ انہوں نے اس مقدس دھرتی کو دہشت گردی کی غلاطت سے پاک کرنا اور انہوں نے یہ جنگ تعلیم اور شعور کی طاقت سے لڑنی ہے اورفتح یاب ہونا ہے، قائد کا اور اقبال کا نوجوان بننا ہے ۔قائد اعظم نے 30اکتوبر1937کو لاہور میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’تعمیر پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں ۔نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوت ارادی ،توانائی ،عمل اور عظمت کردار سے کام کے کر خود کو بلند کیا۔آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالامال ہیں۔مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آبائو اجداد نے حاصل کیا تھا ۔آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘‘آج تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایک بار پھر متحد ہونا ہوگا ،دہشت گردی کے خاتمے اور وطن عزیزکے بقاء اور سا لمیت کے لیے۔

علامہ اقبال ؒ نے نوجوانوں کے متعلق خوب فرمایا تھا:

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا

شباب جس کا ہے بے داغ ،ضرب کاری