حق کا ساتھ دیں

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق

جو تجھےحاضر و موجود سے بیزار کرے۔

مولانا مودودی اپنی کتاب جماعت اسلامی کا مقصد تاریخ اور لائحہ عمل میں لکھتے ہیں “اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہئے ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں۔

جہاں عقل کی پرواز ختم ہو تی ہے وہاں وحی الٰہی آتی ہے اس جگہ عقل کا استعمال کرنا ویسا ہی ہے جیسے آنکھ کے کام کے لیے کان کو استعمال کرنا۔ عقل کو اپنے دائرہ کار میں کام میں لائیں تو کارآمد ہے۔ اسلام اور سیکولر نظام میں یہی فرق ہے۔ سیکولر نظام کے نزدیک علم کے دو ذرائع ہیں حواس خمسہ اور عقل جبکہ اسلام کے مطابق تیسرا ذریعہ وحی الٰہی ہے۔

جب انسان صرف عقل کو استعمال کرتا ہے تو پھرLGBTاور Human Milk جیسے فتنے سر اٹھاتےاور جیسے چاہو جیو جیسی قباحتیں سامنے آتی ہیں اور پھر سیکڑوں سیاسی ومذہبی جماعتوں کی موجودگی میں امرباالمعروف کا کام امام حسین کی طرح جماعت اسلامی اقتدار کے بغیر بھی انجام دیتی ہے۔

جماعت اسلامی کا تربیتی وتزکیری نظام، شورٰی کا نظام اور الیکشن کا نظام دیگر جماعتوں کے لیے رول ماڈل ہے۔ جماعت پاکستان میں نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ جو اقتدار کے بغیر ممکن نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ میں 360 بتوں کی موجودگی میں عبادت پر مجبور تھے مدینہ آمد پر اقتدار ملا، واپس مکہ گئے تو سب سے پہلے بت توڑ کر کعبہ سے باہر پھینک دیے۔ آج بھی فحاشی، ملاوٹ ، اقربا پروری کرپشن اور مافیاز کے بت توڑنا نظام کی تبدیلی اوراسلامی اقتدار سے ہی ممکن ہیں۔

لارنس پرون نے اپنی کتاب The prospect of islam میں طعنہ دیا کہ ہم نے ہندوستان کے دیوانی اور فوجداری قوانین کو دقیانوسی کہہ کر بدلانے کی کوشش کی تو مسلمانوں کو سخت ناگوار گزرا کہ ان کی حیثیت زمیوں جیسی ہو جائے گی اب خود اسلامی حکومتوں نے اسے پسند کر لیا حتیٰ کہ بعض حکومتوں نے پرسنل لاء بھی ہمارے لے لیے ہیں۔

جماعت اسلامی نے اسلامی نظام حکومت کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ مظلومی و محکومی کے بادل چھٹ سکیں۔ مولانا مودودی نے فرمایا افسوس ہم نے جنگل کی صفائی چھوڑ دی تو دنیا خار دار جھاڑیوں سے بھر گئی ۔ جماعت کی قیادت جب سے نوجوان لیڈر کے ہاتھ آئی ہے جماعت مقبولیت کی بلندیوں پر ہے۔ عوام حیران ہیں جنہیں انہوں نے ووٹ نہیں دیے صرف وہی جماعت اشرافیہ کی بدمعاشیوں ، مہنگائی، بےروزگاری، بجلی کے ناقابل برداشت بلوں، ٹیکسوں کے خلاف عوام کی آواز بنی ہوئی ہے اور سراپا احتجاج ہے۔ حق دو عوام کو دھرنا نہیں تحریک ہے جس سے عوام سے زمیوں جیسا سلوک جلد ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ

اسلام انسان میں تقویٰ (اللہ سے ڈرنا گناہوں سے بچنا) لاتا ہے۔ کیا یہ چنگیزی نہیں کہ بجلی میں استعمال کروں بل کوئی ریڑھی والا دے گاڑی کا پٹرول کسی مزدور کی جیب سے ادا ہو۔ عوام کو کوئی سہولت دینے کی بجائے ٹیکس پر ٹیکس لگائیں۔ لیکن عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہر دفعہ ووٹ دیتے ہوئے اپنے پاؤں پہ کلہاڑی کیوں مارتے ہیں۔

ریل گاڑی کے دو ٹریک ایک بند دوسرا رواں کچھ بچے اس ٹریک پر کھیل رھے جو رواں ہے ایک بچہ بند ٹریک پر کھیل رہا تھا ۔ ڈرائیور نے نقصان سے بچنے کے لیے ٹریک بدل دیا اور بند ٹریک پر کھیلتے بچے کو کچل دیا حالانکہ وہ حق پہ تھا۔ حق کا ساتھ دیں تعداد کو نہ دیکھیں۔ اکثریت غلطی پر ہوتی ہے۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں غلط ٹریک پر چل رہی ہیں جو تباہی وبربادی کا راستہ ہے۔ اسلام ہی حق ہے اور حق میں نجات ہے۔