محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
دو تین سال پہلے 14اگست کو لاہور میں گلبرگ سے عسکری 10جانا پڑا۔ راستے میں بہت رش تھا ساری قوم یوم آزادی منانے نکلی ھوئی تھی۔ گاڑیوں کے سن روف سے چہروں پر سبز ہلالی پرچم بنا ئے بچے اور بچیاں جھنڈے لہرا رھے تھے۔ اگرچہ رش کی وجہ سے ٹریفک بہت رک رک کر چل رہی تھی گرمی بھی تھی، غصہ بھی آرہا تھا مگر نوجوانوں کا جذبہ دیکھ کر دل کو خوشی بھی محسوس ہو رہی تھی۔ یہ بچے پاکستان سے کتنی محبت کرتے ہیں کتنا جذبہ ہے ان میں۔
میں تھوڑی دیر دیکھتی اور سوچتی رہی کہ ہماری نوجوان نسل بہت ذہین اور محنتی ہے ہر جوان بہت محنت کرکے کچھ بننا چاہتا ہے ! مگر جب ڈگری ہاتھ میں لیتے ہیں تو سارے خواب چکناچور ہو جاتے ہیں ! جب ان کے حسب حال جاب نہیں ملتی سارا سارادن نوکری کی تلاش میں پھر کر جب گھر آتے ہیں تو گھر والوں کے طعن و تشنیع ان کو اور مایوس کردیتے ہیں، وہ بچے جو اپنے والدین کی امیدوں کا مرکز تھے اب مایوسیوں میں گھر جاتے ہیں اب دو کام ہوں گے یا تو وہ مایوس ہو کر ضائع ہو جائے گے یا پھر وہ کوشش کرکے ملک سے باہر چلے جائیں گے جہاں ان کی پذیرائی ہوتی ہے ان کے ٹیلنٹ کو سراہا جاتا ہے اور یوں ملک کے بہترین ذہن دوسروں کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔
نوجوانوں کی اس صورتحال کے ذمہ دار جہاں پاکستان کے حکمران ہیں جن کے پاس پڑھے لکھے افراد کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے جو صرف اپنے اقتدار کے بھوکے ہیں اسی کے لئیے مارے مارے پھرتے ہیں جلسے جلوس کرکے عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں! جھوٹ بولتے ہیں لیکن عوام کی بھلائی کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ وہیں والدین، عزیز واقارب بھی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں، دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر کے بڑے بوڑھے، بزرگ نوجوان بچوں سے کم ہی پیار سے بات کرتے ہیں زیادہ تر ان کو دیکھتے ہی ڈانٹ ڈپٹ، طنز شروع کر دیتے ہیں کہ آگیا ہمارا خیال، جان چھوڑ دی موبائل نے، جان چھٹ گئی نکمے دوستوں سے۔ یا پھر کبھی کسی کو کوئی چھوٹی موٹی نوکری مل گئی تو اس کے ماں باپ کو اس کی شادی کی جلدی پڑجاتی ہے اب شادی کے بعد نئے مسئلے شروع ہو جاتے ہیں کم تنخواہ میں وہ گھر والوں کے خرچ اٹھائے یا بیوی کے۔ اب ان بزرگوں کو وہ بہو ایک بوجھ لگنے لگتی ہے جس کو ںڑے چاو سے بیاہ کر لائے تھے۔ اب اٹھتے بیٹھتے اس بےچاری بہو کی شامت آجاتی ہے۔
اس طرح ان کی صلاحیتیں مزید نکھرنے کی بجائے دب جاتی ہیں۔ اگر کسی کو سفارش سے کوئی اچھی نوکری مل جاتی ہے یا ہوسکتاہے کہ اس کی کمائی میں حرام کی آمیزش بھی ہو ۔ ان بزرگوں اس گھر کے بڑوں سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ خدا کے لیئے آسانیاں پیدا کریں ہم سب بزرگ اپنی زندگیاں گذار چکے اب ان بچوں کو پراعتماد زندگی دیں۔ اپنے کمپلیکسز ان پر نہ نکالیں ورنہ یا تو نوجوان طبقہ مایوسیوں میں گھر جائے گا یا پھر وہ پاکستان سے فرارہو جائیں گا۔
جس طرح ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایک مضبوط فوج کی ضرورت ھوتی ھے اسی طرح پاکستان کی اندرونی سالمیت اور دفاع کے لئے صحت مند پراعتماد دماغوں کی بھی ضرورت ہے یہ نوجوان ملک کی ترقی کے لئے جو کردار ادا کریں گے اس کےپیچھے سازگار ماحول ھم بزرگوں نے بنانا ھے ۔ آئیے ملکر اپنی نوجوان نسل کی صلاحیتوں کی تعریف کر یں، تنقید چھوڑ دیں۔
یہ نوجوان ہی ہمارا مستقبل ہیں۔