پہلے تھا وطن ایک بنانا ہم نے
پھر اپنے وطن کو تھا سجانا ہم نے
طے ہم نے کیے وہ مراحل لیکن
اب پاک وطن کو ہے بچانا ہم نے
بلا شبہ 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والی سب سے بڑی اسلامی مملکت دنیائے اسلام کے لئے ایک معجزہ ہی تھی جو 27 رمضان المبارک کو ظہور پذیر ہوا۔ معجزے صدیوں بعد رونما ہوا کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی قدر کی جاتی ہے، ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ مقامِ افسوس کہ یہ معجزہ پاکستانی قوم کے ہاتھوں ناقدری کا شکار ہو رہا ہے جو اسے دشمن کے ہاتھوں دو لخت ہونے سے نہیں بچا سکی۔ قدرت نے اسے قوم سبا کی طرح بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ زرخیز زمیں، بہترین نہری نظام، رنگ برنگے موسم، پہاڑوں کی صورت میں معدنیات کے خزانے، خوبصورت، دلکش اور صحت افزا مقامات کا مالک یہ خطۂ ارضی روئے زمین پر ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس کی انوکھی شان ہے کہ اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا خون دفن ہے۔
میں آج بھی چشم تصور سے مہاجرین کے قافلے دیکھ رہی ہوں جو لٹے پٹے، تھکے ماندے، پیدل اور بیل گاڑیوں پر پاکستان کی سرحد کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ دہشت سے پھٹی آنکھیں، پاؤں میں آبلے، چادروں میں لپٹے ہوئے جو ان جسم جو ہر لمحہ موت و زیست کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنے گھر بار لٹنے کا صدمہ بھی ہے اور مقدس سرزمین کو چومنے کا شوق بھی۔ ہولے ہولے، تیز تیز ، کبھی گرتے ہوئے کبھی بھاگتے ہوئے پاک سرزمین کی سرحد کی طرف رواں ہیں ۔ بارگاہِ ایزدی میں یہ قربانیاں شرف قبولیت پاگئیں۔ طوق غلامی ٹوٹا اور آزاد وطن کی آزاد فضائیں عطا ہوئیں ۔ گویا کہ نعمتوں بھری جنت حاصل ہوئی۔ چاہئے تو یہ تھا ہم اس عطیۂ خداوندی پر سجدۂ شکر بجالاتے، اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ترقی کے زینے عبور کرتے جاتے اور اقوام عالم میں نمایاں مقام پاتے۔ لیکن افسوس ہم نے اغیار کا دست نگر بننا قبول کیا۔ آج ہمارے نظام معیشت پر آئی ایم ایف کا قبضہ ہے نظام سیاست، نظام عدالت اور نظام حکومت انگریز بادشاہ کے زیر نگرانی چل رہا ہے۔ تہذیب و ثقافت ہمارے ازلی دشمن بھارت سے درآمد ہوتی ہے۔ غرض کہ ہم نے وہ نعرہ یکسر فراموش کر دیا ہے جو تحریک پاکستان کی جان تھا۔
پاکستان کا مطلب کیا،، لا الہ الااللہ
گویا کہ ہم نے وعدہ کیا تھا اے مالک و مختار ! ! اگر تو ہمیں انگریز اور ہندو کی غلامی سے چھڑوا کر ایک آزاد اور خود مختار مملکت دلوا دے تو ہم اُس میں تیرے پسندیدہ دین اسلام کا نظام نافذ کریں گے۔ قرآن و سنت کی بالا دستی کوتسلیم کرتے ہوئے تیری رضا کے طالب رہیں گے۔ آج وطن عزیز کی عمر 77 برس ہوگئی۔ بچپن گزرا، جوانی گئی، بڑھاپا آگیا لیکن صاحبان اقتدار میں سے کوئی بھی مالک حقیقی سے کئے گئے اس وعدہ کو پورا نہیں کر سکا ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ قوم کھرے اور کھوٹے کی تمیز کرنے سے قاصر رہی ۔ اللہ تعالی کے نیک اور مخلص بندے مسندِ اقتدار حاصل نہ کر سکے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
مگر وقت ابھی باقی ہے ، توبہ کا در کھلا ہے۔ اگر قوم کو احساس زیاں ہو جائے۔ یوم آزادی کے موقع پر چاند ستارے والےا سٹیکر اور پیجز لگا کر گلیوں میں باجے بجانے والے بچوں اور سائلنسر اتار کر موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرنے والے نوجوانوں کو یوم آزادی کا اصل مفہوم سمجھایا جائے ۔ ہمارا میڈیا بے مقصد ڈرامے دکھانے کی بجائے قوم کی اصلاح و فلاح کا فریضہ انجام دے۔ انہیں خوشی و غم منانے کے نبوی انداز سکھائے ۔ اس عارضی زندگی کو دائمی اور اخروی نجات کا ذریعہ بنانے کے طریقے سمجھائے۔ کھرے اور کھوٹے میں تمیز سکھائے۔ پھر ان شاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب یہ قوم غلط اور درست میں فرق سیکھ جائے گی۔ بوقت ضرورت اپنے لئے نیک ، دیانت دار اور محب وطن حکمراں منتخب کرلے گی جو نہ صرف پاکستان کی جفرافیائی حدوں کے محافظ ہوں گے بلکہ اس کی نظریاتی سرحدوں کے بھی نگران ہوں گے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
تہذیب حکومت کا ذریعہ بن کر
ترویجِ اخوت کا ذریعہ بن کر
ہے منزلِ انساں کا منور رستہ
اسلام ہدایت کا ذریعہ بن کر