ضلع اٹک میں دریائے سند ھ کے کنارے ایک علاقہ ہے جسے ’’باغ نیلاب ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نیلاب کے ایک طرف تو دریائے سندھ کا ساحل ہے اور دوسری طرف پہاڑی سلسلہ۔ قریب ہی دریائے کابل اور دریائے سندھ کا سنگم ہوتا ہے۔ پہاڑی سلسلے اور ساحل کے درمیان وسیع وعریض میدان ہے ۔نیلاب اسی میدان کا تاریخی نام ہے ۔
24نومبر 1221 ء بروز بدھ، دن کا آخری پہر ہے، نیلاب کا میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہے ،ہر سمت انسانی اعضاء ڈھیریوں کی صورت میں نظر آرہے ہیں ، زخمیوں کی آہ و بکا سے کان پڑی آوازیں سننا دشوار ہے۔آسمان پر منڈلاتے گدِھوں کے غول جگہ جگہ گھومتے بغیر سواروں کے گھوڑے کہ جن کے سوار قتل ہوچکے ہیں، بکھری ہوئی شمشیریں اور ڈھالیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ تاریخ اسلام کا ایک عظیم الشان معرکہ آج اس میدان میں پیش آیا ہے۔
مگر یہ معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا ،ساحل کے ساتھ جہاں پہاڑی سلسلہ ختم ہوتا ہے وہاں اب بھی شمشیریں میان سے باہر ہیں ،گھوڑے پر سوار ایک آہن پوش جواں مرد اب بھی دشمن سے مدمقابل ہے۔شمشیرزنی کا مقابلہ جاری ہے۔ سوار اگرچہ مکمل طور پر جنگی لباس میں ہے مگر اس کی وجاہت،دلیری اور اس کے گرد موجود حفاظتی دستہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سوار اپنے لشکر کا سالار ہے۔ دفعتاًقریب موجود خیموں میں سے ایک عورت نکل کر چلاتی ہے ’’جلال! جلال! تجھے اللہ کا واسطہ ہمیں قتل کردے جلال ہمیں تاتاریوں کی قید سے بچا لے ! ‘‘
یہ سالار سلطان جلال الدین خوارزم شاہ ہے! صدیوں پرانی سلطنت خوارزم کا سلطان جو کئی سال سے تاتاریوں سے نبرد آزما ہے ۔
جلال الدین نے کئی دفعہ تاتاریوں کے لشکر کو شکست سے دوچار کیا ۔مگر اس دفعہ تاتاریوں کا سالار چنگیز خان بذات خود اس کا مدمقابل ہے ۔چنگیز خان صحرائے گوبی سے یلغار کرتا اور سلطان جلال الدین کا تعاقب کرتا دریائے سندھ کے کنارے اس وقت سلطان سے برسرِ پیکارہے۔
شاہی خیمہ سے پھر اس عورت کی صدا آتی ہے ،یہ خاتون سلطان کی والدہ ہیں اور خیمہ میں سلطان کی ازواج اور شاہی خاندان کی دیگر عورتیں اور بچے ہیں ۔انہیں نظر آرہا ہے کہ سلطان جلال الدین کو شکست ہوچکی ہے اور وہ مٹھی بھر سپاہیوں کے ساتھ تاتاریوں سے زیادہ دیر تک نہیں لڑسکتا ۔شاہی خواتین چنگیز خان کی قید میں جانے سے مرجانا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں ۔سلطان شش و پنج میں مبتلا ہے کہ خونی رشتہ داروں کو اپنے ہاتھ سے وہ کس طرح موت سے ہمکنار کرے۔ سلطان کے محافظ سپاہیوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے اور تاتاریوں کا گھیرا تنگ سے تنگ ہوتا جارہا ہے، سامنے ہی ظلم اورو ستم کا نشان بنا چنگیز خان موجود ہے اور وہ اس آخری معرکہ آرائی کو دلچسپی سے دیکھ رہا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ سلطان کو زندہ گرفتار کیا جائے اسی لئے تاتاری سپاہی سلطان کو تھکا کر گرفتار کرنا چاہتے ہیں ۔
شاہی خیمہ سے سلطان کی والدہ کی صدا ایک دفعہ پھر بلند ہوتی ہے۔ اس دفعہ سلطان جلال الدین فیصلہ کرلیتا ہے۔ وہ شاہی خیموں کی طرف بڑھتا ہے اور پھر تاریخ ایک عجیب منظر دیکھتی ہے۔ سلطان شاہی خواتین کوجس میں اس کی والدہ اور بیویاں شامل ہیں یکے بعد دیگرے دریائے سندھ کی موجوں کے سپرد کر دیتا ہے ۔
اہل و عیال سے بے پرواہ ہو کر سلطان ایک بار پھر تاتاریوں کی افواج سے نبرد آزما ہوجاتا ہے ۔اس کے ساتھیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔تاتاری سپاہ کا گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔سلطان کے پیچھے دریائے سند ھ کی موجیں اپنی جولانی دکھارہی ہیں ۔سامنے کی طرف سے تاتاریوں کا لشکر سیلاب کے مانند بڑھتا چلا آرہا ہے ۔ سلطان لبِ دریاچٹانوں کی بلندی پر چڑھ جاتا ہے ۔(چنگیز خان کا منشی عطاء الملک الجوینی لکھتا ہے کہ اس مقام پر دریا کی گہرائی بہت زیادہ تھی) چٹان پر موجود جلال الدین اپنا تھکا ماندہ گھوڑا تبدیل کرتا ہے ،تیر اندازوں سے محفوظ رہنے کیلئے ڈھال کمر پر لٹکا لیتا ہے ،نیزہ، ترکش اور کمان ساتھ لیتا ہے ایک مسکراتی نگاہ چنگیز خان کی طرف ڈالتا ہے جو سلطان کو زندہ گرفتار کرنے کی فکر میں ہے۔ اس سے پہلے کہ چنگیز خان سلطان کا ارادہ بھانپ لے سلطان گھوڑے کو چابک رسید کرتے ہوئے خطرناک بلندی سے دریا سندھ کی سرکش اور تیز و تند موجوں میں چھلانگ لگا دیتا ہے !
موجوں میں گرجدار آواز پیدا ہوتی ہے ،پانی کئی فٹ اوپر اچھلتا ہے ،چند ثانیوں کیلئے سلطان پانی میں غائب ہو جاتا ہے مگر اگلے ہی لمحے سلطان جلال الدین گھوڑے کی پشت سے چمٹا نظر آتا ہے ۔نومبر کا مہینہ ہے، دریا کا پانی یخ بستہ ہے، اوپر سے سلطان کا جسم زخموں سے چور ہے مگر سلطان کمال ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھوڑے کی پشت سے چمٹا رہتا ہے ۔وفادار گھوڑا اپنے سوار کو لے کر تیرتے ہوئے کنارے کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔پانی کی لہریں کبھی اسے ساحل کے قریب کردیتی ہیں تو کبھی دور۔ لہروں سے لڑتے ہوئے آخر کار سلطان کا گھوڑا دوسرے کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
کنارے پر پہنچ کر سلطان اپنا نیزہ زمین میں گاڑ دیتا ہے اور ایک نگاہ دوسرے کنارے پر موجود فاتح مگر بے بس چنگیز خان کے چہرہ پر ڈالتے ہوئے ایک قہقہہ بلند کرتا ہے۔ وہ چنگیز خان جس کا نام ظلم اوستم کی علامت ہے ،جس کے کا ن چیخیں اور آہیں سننے کے عادی ہیں ۔ وہ جس سلطا ن کی موت کی تمنا لئے دریائے سندھ تک کا سفر طے کرکے آیا ہے وہ سلطان اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے قہقہہ لگا رہا ہے۔ عجیب منظر ہے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا شوقین چنگیز خان شاید اس سے پہلے اتنا بے بس کبھی نہ ہوا ہو۔ جنگ جیت کر بھی وہ سلطان پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے اور سلطان دریا کے دوسرے کنارے پر بیٹھا قہقہہ لگا رہا ہے ۔
چنگیز خان کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے ’’بیٹا ہو تو ایسا ہو ، وہ باپ بڑا خوش قسمت ہے کہ جس کا بیٹا اتنا بہادر ہے۔‘‘
(چنگیز خان کے یہ جملے اس کے منشی الجوینی اور علامہ ابن خلدون نے اپنی تصنیف میں قلم بند کئے ہیں)
چند جوشیلے سردار چنگیز خان سے تیر کر دریا عبور کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں مگر دریا کی تیزی دیکھتے ہوئے چنگیز خان انہیں منع کردیتا ہے ۔
اوپر تحریر کردہ منظر1221 ء میں دریا ئے سندھ کے کنارے پیش آنے والے اس جنگی معرکے کو پیش کرتا ہے کہ جس میں سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے دلیری اور جوانمردی کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی کہ جس کی نظیر آج تک تاریخ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے ۔بیسیوں فٹ بلندی سے گہرے اور تیز رفتار دریا میں زخمی حالت میں چھلانگ لگانا اور پھر بخیر و عافیت دوسرے کنارے تک زندہ سلامت پہنچ جانا انسانی عقل و شعور سے باہر ہے ۔
سلطان جلال الدین وہ جوان مرد ہے کہ جس نے منگولیا سے اٹھنے والے تاتاری سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ، چنگیز خان کی قیادت میں منظم ہونے والی تاتاری وحشی قبائل اس وقت کی آباد دنیا کے تقریباً آدھے حصے کو متاثر کرگئے۔
سلطنت خوارزم :
وسط ایشیاء میں دو بڑے تاریخی اور مشہور دریا بہتے ہیں ’دریائے جیحوں‘ جسے اب’ دریائے آمو‘ کہا جاتا ہے اور دوسرا دریائے’ سیحوں‘ جسے اب ’سیردریا‘ بھی کہتے ہیں۔ ان دونوں دریا ؤں کے درمیانی علاقہ’ ’ماوورا النہر ‘‘کہلاتا ہے ۔ سمر قند، قوقند، بخارا اور ترمذ جیسے مشہورتاریخی شہر اسی علاقے میں واقع ہیں۔اسی دریائے آمو کے کنارے موجودہ ازبکستان میں’ اورگنج‘ نام کا شہر بھی آباد ہے ۔یہی اور گنج سلطنت خوارزم کا درالحکومت تھا۔
سلطنت خوارزم کی تاریخ سکندر اعظم سے بھی تقریباً ہزار سال پرانی ہے۔یعنی خوارزم شاہ کا لقب سکندر اعظم سے بھی قریباً ہزار برس قدیم ہے ۔
زمانہ اسلام میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے سپہ سالار فاتح ترکستان ‘قتیبہ بن مسلم باہلیؒ کے ہاتھوں سلطنت خوارزم اسلامی مملکت میں شامل ہوئی ۔خوارزم کے حکمران خلافت اسلامیہ کے صوبے دار یا گورنر کی حیثیت رکھتے تھے۔ امویوں کے بعد سلطنت خوارزم عباسیوں کے ماتحت آگئی ۔عباسیوں کے دور زوال میں جب بغداد کا خلیفہ کمزور ہوگیا اور مملکت اسلامیہ کے علاقے یکے بعد دیگرے خود مختاری کا اعلان کرنے لگے تو خوارزم شاہ نے بھی اپنی خودمختار حیثیت کا اعلان کردیا۔ بغداد کی مرکزیت سے الگ ہوجانے کے بعد خوارزم کے حکمرانوں نے آس پاس کے علاقے فتح کرنا شروع کردیئے ۔ خلافت عباسیہ کے علاقے جو مرکز کمزور ہونے کے سبب آزاد ہوگئے تھے وہ رفتہ رفتہ سلطنت خوارزم میں شامل ہوتے گئے ۔خوارزم کی سرحدیں وسیع ہوتی چلی گئی اور آخر کار1200 ء میں سلطان علاؤالدین محمد شاہ کے خوارزم شاہ بن جانے کے بعد سلطنت خوارزم کی سرحدیں تیزی سے وسیع ہونے لگی ۔ماورا النہر کے اکثر علاقے جن میں سمر قند، بخارا، قوقند، ترمذ، بلخ، تاشقند اور فرغانہ وغیرہ شامل تھے اورگنج کی سلطنت کے اندر آگئے۔ علاؤ الدین محمدخوارزم شاہ نے ترکان خطاء کے خلاف عظیم کامیابی حاصل کی ۔اسی طرح سلجوقی ترکوں کی مقبوضات بھی خوارزم شاہ کے پاس آگئیں۔ ادھر افغانستان کی غوری سلطنت کاسلطا ن ’شہاب الدین غوری‘ اسمعیلی باطنی فرقہ حسن بن صباح کے فدائیوں کے ہاتھوں شہید ہوگیا ،اس طرح غوری سلطنت انتشار کا شکار ہوگئی اور پھر خوارزم شاہ نے افغانستان پر حملہ کرکے غوری سلطنت پر بھی قبضہ کرلیا۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں تک خوازم شاہ کی مملکت پہنچ گئی۔ اسی طرح موجودہ سرحدی اعتبار سے سلطنت خوارزم اپنے زمانہ عروج میں موجودہ ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، افغانستان، ایران، پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ بلوچستان کے کچھ حصہ پر محیط تھی۔
علاؤ الدین خوارزم شاہ اور خلیفہ بغداد میں چپقلش:
اب سلطان علاؤ الدین خوارزم شاہ نے خلافت عباسیہ کو بھی اپنی سلطنت کا باجگزار بناناچاہا ۔اس نے خلیفہ بغداد کو پیغام بھیجا کہ خوارزم شاہ کا نام جمعہ کے خطبہ میں خلیفہ کے ساتھ شامل کیا جائے اور خلیفہ بغدادسلطنت خوارزم کا مطیع ہوجائے۔
علاؤ الدین خوارزم شاہ کے والد کے زمانے میں بھی خوارزم اور بغداد میں لڑائیاں ہوچکی تھیں مگر اب خوارزم شاہ بغداد کو اپنا مطیع کرنا چاہتا تھا ،اس طرح خلیفہ بغداد اور خوارزم شاہ میں شدید نوعیت کے اختلافات پیدا ہوگئے اور تاریخ نے دیکھا کہ ان اختلافات کے نتیجہ میں مملکت اسلامیہ کے بڑے بڑے شہر تاتاریوں کے ہاتھوں برباد ہوگئے ،لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا ،ان کے سروں سے کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے ۔آخر کار نہ خوارزم شاہ بچا اور نہ ہی خلیفہ بغداد ۔ دونوں ہی تاتاریوں کے ہاتھوں نیست و نابود ہوگئے ۔
تاتاری قبائل کی چنگیز خان کی سربرادہی میں یلغار:
کمزور اور ناتواں خلیفہ بغداد کو اپنا رقیب اور دشمن سمجھنے والا علاؤالدین خوارزم شاہ احمق تھا۔ اس کا اصل دشمن تو صحرائے گوبی میں مسلمانوں کا خون پینے کی تیاریوں میں مصروف تھا اور موقع کی تلاش میں تھا۔
چین کے شمالی علاقے میں ایک وسیع و عریض صحرا واقع ہے۔ جسے صحرا گوبی کہا جاتا ہے ۔ اس کا کچھ حصہ منگولیا میں بھی شامل ہے۔ زمانہ قدیم میں اس صحرا میں وحشی اورجنگجو قبائل آباد تھے۔ صحرا کی سختی سے یہ قبائل بہت سخت مزاج ہوگئے تھے۔ آس پاس کے علاقوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرنا انہیں مرغوب تھا۔ چین کی تاریخی خطائی سلطنت کے حکمرانوں نے دیوار چین قائم کرکے انہیں صحرا تک محدود کردیا تھا۔
قبائلی طرز زندگی میں مرکزیت نہیں ہوتی بلکہ طاقت ہی اصل سر چشمہ ہوتی ہے۔ صحرا گوبی میں مغل قبیلہ سب سے طاقتور تھا۔ 1154 ء میں اس قبیلے کے سردار کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام تموجن رکھا گیا۔ جوان ہو کر تموجن نے مغل قبیلے کے تمام دشمنوں کو شکست دے دی اور ایک طویل اور صبر آزما جدو جہد کے بعد گوبی اور منگولیا کے آوارہ قبائل کو ایک جھنڈے تلے منظم کرتے ہوئے ان سب کا سردار بن گیا۔ صحرائے گوبی میں واحد علاقہ جو کچھ سر سبز اور شہری بود باش لئے ہوئے تھا وہ قرا قرم کے نام سے مشہور تھا۔ تموجن نے تمام قبائل جن میں مغل، ایغور وغیرہ شامل تھے ان کی سربراہی اور مرکزیت کا اعلان کرتے ہوئے قراقرم کو اپنا دارالحکومت قرار دیا اور چنگیز خان کا لقب اختیار کیا۔
چنگیز خان کا چین پر حملہ اور خطائی سلطنت کا خاتمہ:
چنگیز خان کو علم تھا کہ سرکش منگول صرف اسی صورت میں قابو میں آسکتے ہیں جب انہیں جنگ و جدل میں مصروف رکھا جائے ۔ اسے معلوم تھا کہ اگر انہیں فارغ چھوڑدیا گیا تو وہ آپس میں لڑنے لگیں گے۔ کچھ اس وجہ سے اور کچھ ہوسِ مال و زرکے تحت چنگیز خان نے منگولیا کی حدود سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔اس کا پہلا شکار پڑوس میں واقع چین کی خطائی سلطنت بنی۔ کئی سال کی خونریزی کے بعد چین کا شہنشاہ ’’دائی دانگ‘‘ دارالحکومت بیجنگ چھوڑ کر فرار ہوگیا اور چین کا وسیع و عریض ملک چنگیز خان کی مملکت میں شامل ہوگیا۔
چنگیز خان کی سلطنت خوارزم پر نگاہیں:
چین کی فتح کے بعد سلطنتِ قراقرم کی سرحدیں خوارزم کے مسلمان علاقوں کو چھونے لگی تھیں۔ ملک گیری کی ہوس چنگیز خان کو سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ دوسری طرف وہ تاتاری قبائل کو مسلسل جنگ و جدل میں بھی مصروف رکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اب اس کی نگاہیں سلطنت خوارزم کے علاقوں کی طرف مرکوز ہوگئیں۔ خوارزم کے شہر سمر قند، بخارا، تاشقند اور گنج وغیرہ اس وقت عالم اسلام کی تہذیب اور تمدن کا مرکز تھے۔ علم وہنر میں یکتا افراد دنیا بھر سے ان علاقوں میں اپنے فن کی داد حاصل کرنے آتے تھے۔ تجارت کا مرکز ہونے کے سبب ماورا النہر کے یہ شہر مال و دولت کی فراوانی رکھتے تھے۔ چنگیز خان نے اسی مال و دولت اور ہوس اقتدار کے تحت ان سرسبز و شاداب شہروں کو برباد کردیا۔
1218ء میں سلطنت قراقرم اور سلطنت خوارزم کے درمیان آزادانہ تجارت اور آمدو رفت کا معاہدہ طے پایا۔ چنگیز خان مسلم علاقوں پر حملہ آور ہونے سے پہلے ان شہروں کے محل وقوع اور جغرافیائی حالات سے مکمل آگاہی چاہتا تھا۔ چنگیز خان کا طریقہ کار یہی تھا کہ جاسوسوں کے ذریعے ان علاقوں سے متعلق مکمل آگاہی حاصل کرلی جائے، جن پر حملہ آور ہونا مقصود ہو۔ تجارت کے معاہدے کے تحت تاجروں کے روپ میں تاتاری جاسوس سلطنت خوارزم میں پھیل گئے اور سلطنت کے جغرافیائی حالات کے بارے میں معلومات قراقرم پہچانے لگا۔
خلیفہ بغداد ناصر الدین کی چنگیز خان کو عالم اسلام
پر حملہ آور ہونے کی دعوت:
اس ساری داستان میں سب سے المناک پہلو خلیفہ بغداد ناصر الدین کا شرمناک کردار ہے۔ اس کی دعوت پر چنگیز خان عالم اسلام پر فوری حملہ آور ہوگیا ورنہ شاید عالم اسلام کو چند عشرے اس بربادی سے بچنے کیلئے مل جاتے۔
تفصیل اس حادثے کی کچھ یوں ہے کہ خوارزم شاہ سلطان علاؤالدین کا خلیفہ ناصر کو اپنی اطاعت کا پیغام دینا اس بات کا غماز تھا کہ وہ خلیفہ ناصر کی اطاعت سے آزاد ہوچکا ہے۔(اس واقعے کی تفصیل پہلے آچکی ہے) اب خلیفہ بغداد کو براہ راست خوارزم شاہ سے خطرہ لاحق تھا۔ چنگیز خان کا خوارزم شاہ سے معاہدہ دوستی بھی خلیفہ ناصر الدین کیلئے باعث پریشانی تھا۔ دوسری طرف خلیفہ کا زبردست جاسوسی نظام اسے بتارہا تھا کہ حقیقت میں چنگیز خان کا معاہدہ دوستی اور تجارت ایک فریب ہے اور اصل میں چنگیز خان کی نظریں سلطنت خوارزم کے شہر پر ہیں۔ خلیفہ ناصر الدین کے جاسوسوں نے اسے یقین دلایا کہ اگر چنگیز خان کو یہ پیغام پہنچادیاجائے کہ خوارزم پر حملہ کرنے کی صورت میں خلافت بغداد غیر جانبدار رہے گی تو وہ خوارزم پر فوراًحملہ کردے گا۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ چنگیز خان کو مسلمان علاقوں پر حملہ آور ہونے کی صورت میں عالم اسلام کی طرف سے مشترکہ مزاحمت کا شدید خوف لاحق تھا۔
اس پس منظر میں خلیفہ بغداد ناصر الدین نے وہ اقدام اٹھایا جو اس کے منصب کے شایان شان ہر گز نہ تھا۔ خوارزم کے سلطان سے لاکھ خطرہ سہی مگر وہ بہر حال مسلمان حکمران تھا اور اس سے معاملات گفت و شنید سے حل کرنا بہتر تھا۔مگر خلیفہ بغداد نے قراقرم ایک سفارتی وفد روانہ کیا اور ایک خفیہ پیغام چنگیز خان کو بھجوایا کہ اگر وہ خوارزم پر حملہ آور ہوگا تو بغداد کی خلافت اس ضمن میں غیر جانبدار رہے گی۔ یعنی خلیفہ نے چنگیز خان کو عالم اسلام پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ بغداد کی خلافت جو عالم اسلام کا سیاسی مرکز ہے اس سلسلے میں خاموش رہے گی۔
یہ سفارت کاری بڑے ڈرامائی انداز میں کی گئی۔ چونکہ بغداد کے ایلچی کو قراقرم کیلئے خوارزم کے علاقے سے گزرنا تھا۔ اس لیے خلیفہ کا خفیہ خط جو سلطنت خوارزم کیلئے موت کا پیغام تھا اسے چھپانا ممکن نہ تھا۔ خوارزم کے حکام ویسے ہی بغداد والوں سے مشکوک تھے ۔ اس خفیہ پیغام کو پوشیدہ رکھنے کیلئے عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا گیا۔ قاصد کے سر کو مونڈھ دیا گیا اور گنجے سر پر سوئی کو گرم کرکے خلیفہ کا پیغام لکھوایا گیا۔ پیغام کے ساتھ خلیفہ کی مہر کو بھی انگارہ کرکے ثبت کردیا گیا ۔ اس تحریر کو کسی خاص تیل سے چھپا دیا گیا ۔ جب قاصد کے بال اچھی طرح بڑھ گئے تو اسے قراقرم روانہ کردیا گیا۔ اس طرح تاریخ کا یہ خفیہ ترین پیغام چنگیز خان کو پہنچ گیا۔
(اس پورے واقعہ کی منظر کشی قاسم جلالی کے ڈرامے آخری چٹان میں بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔)
خوارزم شاہ کے ہاتھوں چنگیزی قاصد کا قتل:
ادھر خلیفہ بغداد سازشوں میں مصروف عمل تھا ادھر خوارزم شاہ کی حماقت نے اس سے وہ کام کروادیا جس نے عالم اسلام کے وسیع رقبے پر تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کردیں۔تفصیل اس کی کچھ اس طرح ہے کہ تجارتی معاہدے کے تحت قراقرم اور خوارزم کے درمیان تجارتی فاصلوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ ادھر اور گنج کے دربار میں خوارزم شاہ کو متواتر خبریں مل رہی تھیں کہ تجارتی قافلوں کی آڑ میں تاتاری جاسوس بھی مملکت خوارزم میں اپنا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ اسی دوران خوارزم کے سرحدی علاقے اترار کے حاکم ینال خان نے قراقرم سے آنے والے ایک تجارتی قافلے کو جاسوسی کے الزام میں روک لیا۔ اس قافلے میں اکثریت بخارا کے تاجروں کی تھی یعنی یہ قافلہ خوارزم کے رہائشی افراد کا تھا اور قراقرم سے واپس آرہا تھا۔ حاکم اترار نے اورگنج میں خوارزم شاہ کو اطلاع دی۔ خوارزم شاہ نے حکم دیا کہ قافلہ کو گرفتار کرلیا جائے اور جاسوسی کے الزام کی تحقیقات کی جائیں ۔ حاکم اترار ینال خان خوارزم شاہ کا رشتہ دار تھا کچھ اس وجہ سے اور کچھ قافلے میں موجود مال و متاع کے لالچ میں ینال خان نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قافلے والوں کو قتل کردیا اور مال و متاع پر قبضہ کرلیا۔
چنگیز خان کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو اس نے اپنا سفارتی وفد خوارزم شاہ کے دربار میں بھیجا۔ اپنے خط میں چنگیز خان نے سخت احتجاج کرتے ہوئے حاکم اترار ینال خان کی حوالگی کا مطالبہ کردیا۔ مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں جنگ کی کھلی دھمکی دی۔ یہ دھمکی سن کر خوارزم شاہ آپے سے باہر ہوگیا۔اس نے کہا کہ مقتول تاجروں کی اکثریت خوارزم کے باشندوں پر مشتمل تھی۔ چنگیز خان کا احتجاج اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پر جاسوسی کا الزام غلط نہیں تھا ۔ علاؤالدین خوارزم شاہ نے فہم و فراست سے معاملہ نمٹانے کے بجائے غصے میں آکر چنگیز خان کے قاصد کو قتل کروادیا اور قاصد کے ساتھیوں کی داڑھیاں مونڈھ کر انہیں واپس بھیج دیا۔ قاصد کا قتل بین الاقوامی اصولوں کے تحت حالت جنگ میں بھی جائز نہیں ہوتا۔ قراقرم اور خوارزم اسی وقت حالت امن میں تھے۔ ایسے میں قاصد کو قتل کرکے خوارزم شاہ نے وہ بھیانک غلطی کی جس کا خمیازہ عالم اسلام کو ایک کروڑ مسلمانوں کی قربانی دے کر بھگتنا پڑا۔اس کے نتیجے میں خوارزم کی سلطنت ہی برباد ہوگئی اور تاریخ میں قصہ پارینہ بن گئی۔
چنگیز خان کی یلغار:
قراقرم کے دربار میں چنگیزی وفد شکستہ حالت میں واپس پہنچا اور جب اس نے قاصد کے قتل کی اطلاع چنگیز خان کو دی تو چنگیز خان غصے سے کانپ اٹھا۔ تاریخ جہاں کشائی کا مصنف عطاء الملک الجوینی لکھتا ہے ’’چنگیز خان آگ بگولہ ہوگیا اور پھر تاتاری عقائد کے حساب سے مقدس پہاڑی پر چڑھ گیا اور اپنے فرضی معبور کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا۔ اس نے تین دن اور رات اسی طرح گزارے اور پھر نیچے آکر اعلان کیا کہ’’ جس طرح آسمان پر دو سورج نہیں چمک سکتے اسی طرح زمین پر بھی دو شہنشاہ نہیں ہوسکتے!‘‘
چنگیز خان نے خوارزم شاہ کو فوراًپیغام بھیجا، ’’تم نے جنگ کو پسند کیا ہے، اب جو ہوگا سو ہوگا،اور کیا ہوگا؟ یہ خدا کو معلوم ہے۔‘‘
اس طرح عالم اسلام پر تاتاریوں کی یلغار کا آغاز ہوگیا اور ایک قاصد کے قتل کا بدلہ چنگیز خان نے ایک کروڑ مسلمانوں کو قتل کرکے لیا۔
تاتاریوں کی عالم اسلام پر کی جانے والی یہ یلغارتقریباً بارہ سالوں پر محیط ہے۔ چند ایک کے سوا عالم اسلام کے تقریباًتمام بڑے شہر اس کی لپیٹ میں آئے۔مسلمانوں کی لاشوں کے انبار لگائے گئے ۔ ایک کروڑ سے زائد مسلمان کام میں آئے،بڑے بڑے عالم دین ، مجدد، محدث اور مختلف فنون کے ماہر اسی سیلاب بلا خیز کی رو میں بہہ گئے۔ عالم اسلام کا آدھے سے زیادہ رقبہ اس سے متاثر ہوا۔ اتنی بڑی تباہی روئے زمین پر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ اتنی بڑی یلغار کا ذکر چند صفحات کے مضمون میں سمونا بہت مشکل ہے۔ اس ذکر کیلئے مستقل کتاب درکار ہے۔ پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بات سمجھ آجائے۔
تاتاریوں اور علاؤالدین خوارزم شاہ کا ٹکراؤ:
1219 ء میں چنگیز خان نے اپنی سپاہ کو منظم کرنے کا حکم دیا اور ایک لشکر جرار کے ساتھ خوارزم کی سرحدوں کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ مورخین نے چنگیزی لشکر کی تعداد سات سے آٹھ لاکھ تک بیان کی ہے۔ طبقاتِ ناصری میں سات لاکھ جبکہ حافظ ابن کثیر نے آٹھ لاکھ لکھی ہے۔ خوارزم کی سرحدوں کے قریب پہنچ کر چنگیز خان نے ایک لشکر اپنے بیٹے جوجی خان کی سربراہی میں خوارزم کے روایتی راستے سے بھیج دیا اور خود اس عظیم لشکر کو لے کر غیر روایتی اور دشوار گزار راستہ اختیار کیا۔
خوارزم شاہ کا جاسوسی کا نظام ناقص نکلا اور وہ جوجی خان کے لشکر کو چنگیز خان کا لشکر سمجھ کر چنگیز خان کی عسکری چال کا شکار ہوگیا۔ دریائے سیحوں کے پار سطع مرتفع پامیر جو آج کل چین کا مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ یا کاشغر کہلاتا ہے ‘خوارزم شاہ اور جوجی کا ٹکراؤ ہوگیا۔ خوارزم شاہ کا لشکر چار لاکھ سپاہیوں پر مشتمل تھا اور جوجی خان کے پاس اصل لشکر کا صرف ہر اول دستہ تھا۔ راستے میں جوجی خان کے ساتھ چنگیز خان کا مشہور سالار جبی نویان بھی شامل ہوگیا تھا مگر پھر بھی تعداد کے حساب سے تاتاری اب بھی خوارزمیوں سے بہت کم تھے۔ دوسری طرف چنگیز خان اپنا اصل لشکر لے کر دشوار گزار پہاڑی راستوں سے خوارزم کے وسط کی طرف محو سفر تھا۔ چنگیز خان کا منصوبہ خوارزم شاہ کو سرحدی علاقوں میں الجھا کر کمزور کرنا اور پھر اچانک آندھی طوفان کی طرح خوارزم کے وسطی شہر بخارا پر قبضہ کرنا تھا۔ بخارا کی فتح کے بعد اس نے اپنی مہم کو آگے بڑھانا تھا۔
کاشغر کے میدان میں جوجی خان اور خوارزم شاہ میں معرکہ لڑا گیا۔ اس معرکے سے پہلے جلال الدین خوارزم شاہ جو اسی وقت شہزادہ تھا اس کی سربراہی میں تاتاریوں سے خوارزمیوں کی جھڑپ ہوچکی تھی جس میں خوارزمیوں کا اچھا خاصا نقصان ہوا تھا ۔ بہر حال یہ معرکہ خوارزم شاہ کے حق میں بہت بُرا ثابت ہوا۔ تاتاری اس لڑائی میں بڑی بے جگری سے لڑے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تاتاری حملہ آور خوارزم شاہ سے صرف سوگز فاصلے پر رہ گئے مگر جلال الدین ہمت اور بہادری کے ساتھ اپنے والد کو بچا کر پیچھے لے آیا۔ کاشغر کی لڑائی تین دن جاری رہی اور پھر جوجی خان چنگیز خان کی منصوبہ بندی کے تحت پیچھے ہٹ گیا۔ خوارزم شاہ نے اسے تاتاریوں کی شکست سے تعبیر کیا اور اعلان فتح کردیا۔ مگر اس تین روزہ جنگ میں خوارزم شاہ کے دل د دماغ میں تاتاریوں کی ہیبت طاری ہوگئی تھی۔ تاتاری کے خوفناک انداز اور لڑنے کے بے خوف اور نڈر طریقہ کار نے خوارزمیوں کو مبہوت کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ انہیں کوئی ماورائی مخلوق سمجھ رہے تھے۔
سقوط سمر قندو بخارا:
کاشغر سے پیچھے ہٹتے ہی چنگیز خان کا ایک تازہ دم لشکر جوجی خان کے پاس پہنچ گیا اور چنگیز خان نے جوجی کو سرحدی علاقے فتح کرنے کا حکم دے دیا۔ جوجی خان سرحدی قلعے فتح کرتا اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتا ہوا قوقند پر حملہ آور ہوگیا ۔ قوقند خوارزم کا عظیم الشان شہر تھا۔ اس کا حاکم تیمور ملک تھا جس نے بڑی بے جگری اور دلیری سے قوقند کا دفاع کیا مگر تقدیر کے لکھے کو بھلا کون مٹا سکتا ہے۔
دوسری طرف چنگیزی سالار جبی نویان لشکر سے علیحدہ ہوکر سمر قندکے تاریخی شہر کی طرف حملہ آور ہوگیا۔ ادھر چنگیز خان مرکزی لشکر کے ساتھ بخارا کے عظیم الشان شہر کی طرف بڑھا۔
بخارا، سمر قند، قوقند اترار غرض ہر طرف سے تاتاری یلغار کی خبریں خوارزم شاہ تک پہنچنے لگیں ۔ تاتاریوں سے مرعوب خوارزم شاہ گھبرا گیا اور ایک کے بعد دوسرے شہر سے فرار ہونے لگا۔ اس نے بجائے ایک جگہ رُک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کے اپنے لشکر کو سلطنت کے مرکزی شہروں کے دفاع کیلئے پھیلا دیا۔ خوارزم شاہ کا یہ اقدام تباہ کن ثابت ہوا اور خوارزمی ہر محاذ پر شکست کھانے لگے۔ اب خوارزم شاہ کی تلاش میں تاتاری لشکر اس کا پیچھا کرنے لگا مگر خوارزم شاہ نے براہ راست مقابلے سے گریز کیا۔
چنگیز خان کی برق رفتاری کے سبب سال بھر میں خوارزم کی سلطنت کے اکثر علاقے تاتاریوں کے زیر تسلط ہوگئے۔ سمر قند اور بخارا میں تاتاریوں نے مسلمانوں کی لاشوں کے انبار لگا دئیے ۔ کھوپڑیوں کے مینار قائم کئے گئے۔ قوقند اور اترار کا حال بھی یہی ہوا۔ حاکم اترار ینال خان جس نے چنگیزی قافلے کو قتل کیا تھا اسے زندہ گرفتار کرکے چنگیز خان کے حوالے کردیا گیا ‘ جسے بعد میں عبرت ناک انداز میں قتل کردیا گیا۔ خوارزم شاہ کا تمام خزانہ تاتاریوں کے قبضے میں آگیا۔ سب سے بڑھ کر حرم سرا کی خواتین بھی تاتاریوں کے قبضے میں چلی گئیں۔ سب سے برا حشر دارالحکومت اور گنج کا ہوا۔ تاتاریوں نے دریا کا رُخ موڑ کر پورا شہر غرق کردیا۔
تاتاری خوارزم شاہ کی بو سونگھتے پھر رہے تھے خوارزم شاہ نے بھیس بدل کر بحیرہ خزر کے ویران جزیرے آب سکون میں روپوشی اختیار کرلی۔ اسی حالت میں چند ہی دنوں میں وہ انتقال کرگیا اور مرنے سے تین دن پہلے جلال الدین کو اپنا جانشین مقرر کرگیا۔
شہزادہ جلال الدین بطور خوارزم شاہ:
سلطان جلال الدین نے جس وقت حکومت سنبھالی وہ وقت نہایت نازک تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی اسے دارالحکومت سے فرار ہونا پڑا۔ اور گنج کے قتل عام میں بارہ لاکھ مسلمان شہید کئے گئے۔ اسی ہنگامے میں جلال الدین کے دو بھائی بھی ہلاک ہوگئے۔ اب جلال الدین خوارزم شاہ نے خراسان کے علاقے کا رُخ کیا۔ بچی کچی سپاہ کو منظم کرنے کے خیال سے خراسان کا علاقہ بہترین تھا کہ یہ علاقے ابھی تاتاری یورش سے محفوظ تھے۔ جلال الدین کو سپاہ منظم کرتا دیکھ کر چنگیز خان نے ان کا پیچھا کرنے کا حکم دیا۔ دوسری طرف تاتاری وحشیوں نے نسا، نیشا پور، مرو جیسے علم و فن کے مراکز برباد کردئے۔ جلال الدین خوارزم شاہ کے تعاقب میں چنگیز خان بذات خود خراسان پہنچ گیا۔ اسی دوران ہرات کا علاقہ بھی تاتاری قبضے میں چلا گیا۔ غرض یہ کہ عجب افرا تفری کے حالات میں جلال الدین خوارزم شاہ نے اپنے والد کے برعکس تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان میں تاتاریوں کو مزاحمت کا سامنا:
اب تاتاریوں کی یورش افغانستان تک پھیل چکی تھی۔ افغانستان کے علاقے میں تاتاریوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘ کئی قلعے مہینوں کی جنگ کے بعد فتح ہوئے اور کئی ایک پر تاتاریوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اسی دوران قندھار کا معرکہ پیش آگیا۔ جلال الدین کو اطلاع ملی کہ قندھار کے قلعے کا نہایت سخت محاصرہ کیا گیا ہے۔ اہل قندھار کی مدد کرنے کیلئے جلال الدین اپنی سپاہ کو لے کر پہنچ گیا۔ اہل قندھار کے ساتھ مل کر تاتاریوں کو شکست فاش دی اور یہ پہلا موقع تھا کہ حملہ آور تاتاریوں میں سے ایک بھی زندہ واپس نہ جا سکا۔
غزنی بطور مراکز:
قندھارکے معرکے نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کردئے۔ اب جلال الدین نے غزنی کے علاقے کو اپنا مرکز بنالیا اور غزنی میں اپنی قوت مجتمع کرنے لگا۔ دوسری طرف طالقان کے شہر پر چنگیز خان بذات خود حملہ آور تھا۔ غزنی کے حالات سن کر اور قندھار کے پسپائی نے اسے برانگلیختہ کردیا۔ اس نے فوراًغزنی کی طرف ایک لشکر جرار روانہ کیا ۔ اس دفعہ جلال الدین نے قلعہ بند ہوکر لڑنے کے بجائے باہر نکل کر تاتاریوں کا مقابلہ کیا۔ تین دن کی گھمسان کی لڑائی کے بعد مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگئی اور تاتاری پسپا ہوکر پلٹ گئے۔ جلال الدین کی اس فتح نے اہل افغانستان میں روح پھونک دی ایک طرف تو وہ جوق درجوق غزنی کا رخ کرنے لگے اور دوسری طرف افغانستان کے مفتوح علاقوں میں تاتاریوں کے خلاف بغاوت برپا ہونا شروع ہوگئی۔
پروان کا معرکہ:
غزنی کے معرکے کے بعد خراسان کے علاقے میں پھیلنے والی بغاوت کے نتیجے میں تاتاریوں نے مفتوحہ علاقوں میں قتل عام کرنا شروع کردیا۔ اس قتل عام میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ اسی دوران طالقان میں مقیم چنگیز خان کو جلال الدین خوارزم شاہ نے پیغام بھیجا کہ عام مسلمانوں کو قتل کرنے کے بجائے میرے لشکر کا مقابلہ کرے اور اس کیلئے میدان وہ خود منتخب کرے۔ یہ پیغام چنگیز خان کو آگ بگولہ کرنے کیلئے کافی تھا ۔ اس نے اپنی تمام قوت کو خراسان میں جمع ہونے کا حکم دیا اور پھر اپنے بیٹے تولی خان کو ایک لشکر جرار دے کر غزنی کی طرف روانہ کیا۔
پروان کے میدان میں تولی خان اور جلال الدین کا معرکہ پیش آیا اور آخر کار گھمسان کی لڑائی کے بعد تولی خان قتل ہوا اور تاتاریوں کی بڑی تعداد جلال الدین کی قید میں چلی گئی۔ چنگیزی یلغار کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں تاتاری گرفتار ہوئے تھے۔
سلطان کے امراء میں پھوٹ:
پروان کی فتح نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کردیے تھے۔ تاتاری کے قابل شکست رہنے کا تصور پاش پاش ہوگیا تھا۔ قریب تھا کہ جلال الدین آگے بڑھ کر خود چنگیز خان پر حملہ کردیتا اور اسے خراسان سے دھکیلتا ہوا ماورالنہر کے علاقوں میں لے جاتا مگر قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مسلمانوں کو اپنوں ہی نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ۔ پروان کے مال غنیمت میں ایک بیش قیمت گھوڑے پر سلطان جلال الدین کے دو نہایت اہم امراء امین الملک اور سیف الدین میں جھگڑا ہوگیا ۔ بات قتل و غارت گری تک پہنچ گئی۔ امین الملک سلطان کا رشتہ دار تھا۔ سیف الدین نے جلال الدین پر اقرباء پروری کا الزام لگاتے ہوئے لشکر اسلام سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نازک موقع پر سلطان جلال الدین گھبرایا اور سیف الدین کو روکنے کی بہت کوشش کی۔ مگر سیف الدین نہ مانا اور اپنی حامی امراء کے ساتھ فوج کا ایک بڑا حصہ لے کر جلال الدین سے الگ ہوگیا۔
جلال الدین خوارزم شاہ کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کی فوج میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔ چنگیز خان کو اس کا علم ہوا تو اس نے موقع غنیمت جان کر سلطان پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس دفعہ چنگیز خان بذات خود اپنا لشکر لے کر نکلا ۔
ساحل سندھ کا تاریخی معرکہ:
قلیل فوج کے ساتھ چنگیز خان کا مقابلہ مشکل تھا۔ جلال الدین نے اس وقت فیصلہ کیا کہ بچی کچی سپاہ لے کر فرار اختیار کیا جائے تاکہ تیاری کا مناسب موقع مل سکے۔ جلال الدین خوارزم شاہ نے باغی امراء کی طرف راہ فرار اختیار کی تاکہ راستے میں ان کو سمجھا بجھا کر واپس ملانے کی کوشش کرے۔ مگر چنگیز خان کی طوفانی رفتار کے باعث اسے ہندوستان کا رُخ کرنا پڑا ۔ چنگیز خان کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ جلال الدین باغی امراء کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو، نہ ہی وہ جلال الدین کو دریائے سندھ پار کرکے ہندوستان میں داخلے کا موقع دینا چاہتا تھا کہ وہ سلطان التمش کے پاس پناہ حاصل کرلے۔ یہی وجہ تھی کہ چنگیز خان برق رفتاری سے جلال الدین کا تعاقب کر رہا تھا۔ دوسری طرف جلال الدین خوارزم شاہ اپنی بچی کچی سپاہ کو بچا کر ہندوستان میں سلطان التمش کے پاس پناہ لینا چاہتا تھا۔
ضلع اٹک کے علاقے میں باغ نیلا ب کے ساتھ دریائے سندھ کے ساحل پر چنگیز خان نے جلال الدین خوارزم شاہ کو جالیا۔ تاتاریوں اور خوارزمیوں میں خوفناک لڑائی لڑی گئی۔ جلال الدین کو اندازہ تھا کہ یہ جنگ اس کی فنا اور بقا کی جنگ ہے ۔ تاتاریوں کے ہاتھوں جلال الدین کا لشکر برباد ہوگیا۔ اس معرکے کی تفصیل شروع میں درج کی گئی تھی۔ 24نومبر1221 ء کو یہ معرکہ پیش آیا جس میں خوارزم شاہ نے جوان مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریائے سندھ کو عبور کرلیا باقی تمام سپاہ سوائے چند ایک کے تاتاریوں کے ہاتھوں شہید ہوگئی۔
جلال الدین خوارزم شاہ کا افسوس ناک انجام:
دریائے سندھ عبور کرکے جلال الدین کے چند ساتھی اپنے سلطان کے پاس پہنچ گئے۔ لٹا پٹا یہ شاہی قافلہ دہلی کے سلطان التمش کی طرف چلا۔ ادھر چنگیز خان نے تاتاری لشکر جلال الدین کے پیچھے روانہ کئے مگر وہ ان کی پہنچ سے دور نکل گیا۔ تاتاری لشکر نے ملتان ، لاہور اور پنجاب کے دیگر پر حملہ کردیا۔ تاتاریوں کا ایک اور لشکر بلوچستان کی سمت خضدار کی طرف تباہی پھیلاتا چلا گیا۔ مگر موسم گرما شروع ہوگیا تھا اور ہندوستان کی گرمی منگولیا کے سرد علاقے کے باشندوں کو راس نہیں آئی اور وہ بیمار پڑنے لگے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چنگیز خان نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔
دوسری طرف التمش نے کھل کر جلال الدین کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ مجبوراً جلال الدین نے ہندوستان کی چھوٹی چھوٹی ہندو ریاستوں کو فتح کرکے اپنا لشکر منظم کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں چھوٹی سی مملکت بنانے کے بعد جلال الدین نے عراق کا رُخ کرلیا۔ تاتاریوں کے خلاف جلال الدین کی جدو جہد دس سال تک جاری رہی۔ چنگیز خان کا اسی دوران انتقال ہوگیا۔ مگر اس کے جانشین نے مسلمانوں کے خلاف بربادی کا سلسلہ جاری رکھا جو بڑھتے بڑھتے ایران کے شہر قم تک پہنچ گیا۔ عالم اسلام کے خلاف تاتاریوں کی دست درازیاں جاری رہیں اور جلال الدین تنہا اس سیلاب بلا خیزکے آگے بند باندھتا رہا۔ اس نے کئی دفعہ تاتاریوں کیخلاف اتحاد بنانے کیلئے خطے کے دیگر مسلم حکمرانوں کی منت سماجت کی۔ بغداد کے خلیفہ ناصر کو ساتھ ملانے کیلئے وہ خود بغداد جا پہنچا۔ مگر بجائے مدد کرنے خلیفہ بغداد نے جلال الدین کے لشکر پر حملہ کردیا۔ درباری سازشوں اور اپنوں کی غداریوں سے جلال الدین کمزور ہوتا چلا گیا۔ آخر کار 1231 ء میں تاتاریوں کے خلاف دس سال جدو جہد کرکے یہ عظیم مجاہد خاموشی سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ویرانوں میں بھیس بدل کر روپوش ہوگیا۔ کئی سال تک یہ افواہ پھیلی رہی کہ وہ کسی نا معلوم جگہ پر تاتاریوں کے خلاف منظم ہورہا ہے اور تاتاری اس کی بو سونگھتے رہے مگر جلال الدین پھر دوبارہ کسی کو نظر نہیں آیا۔ بعد میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پہ حملہ کرکے خلافت عباسیہ کا خاتمہ کردیا اور بغداد کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کی۔ اس طرح خلیفہ بغداد کی سازش اپنے انجام کو پہنچی۔
17 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
بہت عمدہ اور خوبصورت تحریر عدیل سلیم صاحب
تاریخ کے جھرونکوں سے ایک نادر انتخاب
شکریہ
بہت عمدہ عدیل صاحب اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو۔تاریخ لکھتے ہوئے غیر جانبدار ہونا بہت ضرورت ہے۔چنگیز خان کے مسلمانوں پر مظالم اپنی جگہ درست ہیں مگر اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کونسی کمزوریاں تھیں جنکے سبب مسلمان مستقل شکست کھاتے رہے۔
درست کہا آپ نے ماجد حامد صاحب!!
اگر تاریخ سے سبق سیکھ لیا جاتا تو عالم اسلام اس حال میں نہ ہوتا۔
تاتاری یلغار کو روکنے میں اگرچہ سلطان جلال الدین خوارزم شاہ ناکام رہے مگر ان کے بعد کے مسلم حکمرانوں خصوصاً دھلی کے خلجی سلاطین نے نہ صرف ان کا پامردی سے مقابلہ کیا بلکہ چنگیز خان کے جانشینوں کو شکست دے کر انہیں ھندوستان میں داخل ہونے سے نہ صرف روکا بلکہ انہیں واپس ماورا النہر کے علاقے میں دھکیل دیا۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اللہ کریم
امت مسلمہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے
جناب عدیل سلیم صاحب
آپ نے تاریخ کے ایک اہم باب کو بہت عمدہ انداز سے مرتب فرمایا ہے
.
جاوید اختر آرائیں
بہت زبردست تحریر ہے۔ پڑھنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی واقعات کا حصہ ہے، عدیل سلیم جملانہ صاحب نے بڑی خوبصورتی سے تاریخی واقعات کو رقم کیاہے۔ انکی یہ تحریر باشعور مسلمانوں کو بہت اہم پیغام دیتی ہے کہ تاریخ میں مسلمانوں کو جب بھی شکست ہوئی ہے وہ اپنوں کی نااتفاقی اور آپس کی چپقلش کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قارئین کو اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق دے، آمین
عدیل سلیم جملانہ تاریخ کو غیرجانبدار ی اور اختصار کے ساتھ بیان کرنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ ماشاءاللہ بہت خوبصورت اور عمدہ تحریر بغیر کسے افسانوی رنگ کے۔ حقیقت سے قریب ترین منظر کشی فرمائی ہے آپ نے۔ ہمیں اپنی تحاریر سے اسی طرح فیضیاب کرتے رہیے۔
جزاکاللہ
شکریہ،
تمام احباب کا
بھائی عدیل سلیم …… السلام علیکم،
آج آفس سے گھر پہنچا تو” جسارت بلاگ” سے ملاقات ہوئی … پہلی فرصت میں آپ کا طویل مضمون پڑھا. ماشاءاللہ اب میرے تبصرے بہت پیچھے رہ گئے ہیں… بخدا میں نے آپ کی طرح اسلامی تاریخ کے ہر دور اور ہر خطے کا مطالعہ نہیں کیا .. یقیناً میں اس طویل سفر میں آپ کا مکمل طور پر ساتھ نہیں دے سکوں گا. ابھی تک تو پردہ پوشی کی وجہ سے کام چل رہا ہے اور بھرم قائم ہے…. اب ہوتا یہ ہے کہ آپ کے مضمون کے ساتھ میں اپنے ذخیرہ پر نظر ڈالتا ہوں اور اس سے متعلق دستیاب مواد کو ایک نظر دیکھ لیتا ہوں… آپ کی تحریر میں سوائے جگہ کی تنگی کے کوئی خامی نظر نہیں آتی.. کہیں کہیں الفاظ کے استعمال میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے مثلاً… نیٹ ورک.. کی جگہ کوئی دوسرا لفظ لکھا جا سکتا تھا… بہرکیف آج بھی ایک کتاب.. تاریخِ خوارزم شاہی…. نے ساتھ نبھایا مگر کب تک… آخر کب تک..
تاریخ کے اتنے گہرے مطالعہ کے بعد ایک بات کا آپ کو ضرور خیال آتا ہو گا کہ ایک چھوٹا سا واقعہ کیسے حیرت انگیز طور پر تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے… (درست یا غلط خارج از بحث ہے)… . جیسا کہ آپ کے مضمون میں ہے کہ علاءالدین محمد خوارزم شاہ کے ایک علمدار نے لالچ میں آ کر ایک تجارتی قافلے کو لُوٹ لیا اور تاجروں کو قتل کر دیا. آگے کے نہ ختم ہونے والے المناک واقعات اس کے ردعمل کا تسلسل ہیں. اس واقعہ کے بارے میں ایسا غیر ذمہ دارانہ رویہ خوارزم شاہ نے اپنی ماں کے دباؤ کی وجہ سے اپنایا تھا کیونکہ مذکورہ عملدار… اترار کے علاقے کا عملدار.. غایر خاں اینال جق…. علاءالدین کا حقیقی ماموں تھا…..
پھر محض ایک قیمتی گھوڑے پر دو کمانڈروں کا ایک ساتھ دل آ جانا اور ناراض ہو کر تاریخ کا دھارا موڑ دینا…
اللہ تعالٰی سب کو خوش رکھے،
آمین
شکریہ امجد صاحب
خوبصورت اور جامع انداز میں تاریخ اسلام کے اس گوشے کو اجاگر کیا گیا ہے
Nice Article of a series
ماشاء اللہ
نہایت عمدہ تحریر
Very nice and beautifully summarized article,
نہایت عمدہ
جنگ صفین سے شروع ھونے والا انتشار آج تک جاری ھے
بزدل خوارزم شاہ کی کب تک جھوٹی تعریفیں ہوتی رہیں گی۔😄