مغرب میں نئے دور کا آغاز

گزشتہ کئی ماہ سے فلسطین میں جاری ظلم اور بربریت کے خلاف جہاں مسلم حکمران خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں وہیں مسلمانوں کے اسرائیلی مصنوعات کے شدید بائیکاٹ کے باعث کم از کم اسرائیل اور ان کے حواریوں کو یہ پیغام پہنچ گیا کہ مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔

حال ہی میں فلسطین کے حق میں  ہونے والے مظاہروں میں نہ صرف مسلم ممالک میں مسلمان طلبہ اور نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ یہ بھی دیکھا گیا کہ یورپی ممالک اور بین الاقوامی سطح پر بھی طلبہ اور نوجوانوں میں اس ظلم کے خلاف نہایت غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔

حکومتی سطح پر تقریباً تمام یورپی ممالک اس ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے مگر انہی ممالک کے نوجوان خصوصا طلبہ ان مظالم کے خلاف نہایت مشتعل اور غم و غصے میں گھرے ہوئے  نظر آئے۔ کہیں غیر مسلم طلبہ مظاہروں کے دوران  مسلمانوں کی نماز ادا کرنے کے کرنے کے لیے ہاتھوں کی زنجیر بنا کے مضبوط دائرہ قائم کرتے نظر آرہے ہیں۔ تو کہیں یورپی یونین میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آنسو بہاتے نمائندگان اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ “ہیوسٹن” اور “ٹیکساز” جیسی لبرل اور آزاد ریاستوں میں طلبہ پلے کارڈ اٹھائے احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایسے جوش و جذبہ رکھنے والے نوجوان بھی دیکھے گئے جنہوں نے سرِعام اسرائیلی ریاست میں فلسطینی پرچم لہرا کے اسرایلی حکومت کہ منہ پے زور دار طمانچہ رسید کیا۔ عوام کے ساتھ ساتھ خواص یعنی وہ افراد جو عوام میں کچھ شہرت رکھتے ہیں بھی اس موضوع پر خاموش نہیں رہے بلکہ سوشل میڈیا پر سراپا احتجاج نظر آئے ۔بہت سی مشہور برینڈز نے اسرائیل سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا ۔

یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ظلم کے خلاف نعرۂ حق بلند کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ انسان کلمہ گو ہی ہو،یہ ظلم ایسا بدتر ہے کہ ہر درددل رکھنے والے  انسان کا دل خون کے آنسو بہا رہا ہے ۔

بظاہر دیکھا جائے تو خود اپنی ہی ریاستی حکومت کی اسٹریٹجی کے خلاف آواز اٹھانا نہایت ہمت اور جرأت کا کام ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کی انقلابی تحریک کا آغاز مغرب سے شروع ہوگا۔

اٹھ کر اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں نئے دور کا آغاز ہے۔