امی گھر میں داخل ہوئیں تو چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا,کمروں کی لائیٹس جل رہی تھیں لاونج میں داخل ہوئیں تو وہاں بھی سناٹا، یہ پانچوں بہن بھائی گئے کہاں؟ اب جو سامنے نظر پڑی تو وہ پانچوں اسی لاونچ میں موجود تھے لیکن پانچوں اپنے اپنے موبائل میں مصروف تھے، امی نے امبر کو آواز دی لیکن امبر تو اپنے موبائل میں اس قدر محو تھی کہ اسے آس پاس کا ہوش ہی نہ تھا، آخر امی نے غصے سے زور سے چیخ کر آواز دی تو پانچوں آمی کی طرف متوجہ ہوگئے ،تم لوگ چار گھنٹوں سے اسی موبائل میں مگن تھے۔
احمد ! تو امی کیا کرتے، ٹی وی پر بھی کوئی مزے کا پروگرام نہیں چل رہا تھا،
امی ! صرف ٹی وی اور موبائل ہی سے تمہارا واسطہ ہے، آپس میں بیٹھ کر کچھ کچہری کرتے دادی کے ساتھ باتیں کرتے،اور ہاں تمہاری دادی ہیں کہاں؟
نورین ! امی وہ اپنے موبائل کی آواز اتنی تیز کردیتی ہیں کہ ہم سب ڈسٹرب ہوتے ہیں اس لئے ہم نے ان سے کہا آپ اپنے کمرے میں بیٹھ کر اپنا موبائل استعمال کریں، اس لئےوہ شاید اپنے کمرے ہوں گی-
جی ہاں آج اکثر وبیشتر گھرانوں کا یہی حال ہے۔
مزکورہ بالا جب یہ صورتحال اپنے آس پاس دیکھتی ہوں تو میں زیادہ نہیں صرف دو دہائیاں پیچھے چلی جاتی ہوں ،میں ان دنوں درس وتدرس سے وابستہ تھی ویسے تو چاروں بچے بھی اسکول اور کالج جاتے تھے لیکن مجھے اکثر ہفتے کے دن بھی اسکول جانا پڑتا تھا، بچے اور انکے بابا گھر پر ہی ہوتے تھے، میرے واپس آنے تک ان پانچوں کا وقت کتابیں پڑھنے یا اپس میں بات چیت کرنے میں گزرتا تھا بلکہ بعض اوقات چاروں بہن بھائی ملکر فریج یا اپنی الماری وغیرہ صاف کرکے رکھتے تھے، چھٹی والے دن ہم سب گھر والے ملکر ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھتے تو اس پر ڈسکس کرتے جاتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ یہ چاروں بچے آج شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ہر موقع پر ڈسکس کرتے رہتے ہیں اور باہمی مشورے کے بعد کسی سلسلے میں فیصلہ کرتے ہیں، ماشاءاللہ۔
میری دعا ہے کہ یہ ہمارے بعد بھی اسی طرح جڑے رہیں، آمین۔
لیکن آج میں دیکھتی ہوں اور یقینا ًآپ بھی میری بات سے متفق ہونگے کہ اب ایک چھت تلے رہنے والے اکثر بھائی بہنوں میں بھی وہ انسیت اور اپنائیت کے احساسات نہیں رہے ہیں بہن بھائی ایک دوسرے کی پسند نا پسند سے بھی ناواقف نظر آتے ہیں یہ صورتحال دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ نہ جانے اگلا وقت کیسا ہوگا ؟
اگر دیکھا جائے تو آج یقینا موبائل نے ہم سے وہ خوبصورت وقت چھین لیا ہے ہم ایک چھت تلے رہنے والے بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں اس سلسلے میں والدین کی بھی زمہ داری ہے کہ خصوصا اپنی اولاد کو رشتوں کی اہمیت کا احساس دلاتے رہیں اور انہیں ایک دوسرے سے قریب کرنے اور جوڑے رکھنے، میل جول رکھنے کی تاکید کرتے رہیں، جہاں کہیں کمی نظر آئے یا اگر کوئی دوسرے بھائی بہن کے ساتھ نا انصافی کرتا نظر آئے تو والدین اسے نہ صرف احساس دلائیں بلکہ روکیں بھی کہ اس کی یہ روش غلط ہے۔ آج میں خصوصا مال ودولت اور جائیداد کی وجہ سے نا انصافی ہوتے دیکھتی ہوں جسکی وجہ سے بھائی بہنوں میں دوریاں بڑھتی جاتی ہیں تو بڑا رنج ہوتا ہے اور پھر بوڑھے ماں باپ کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے رب العزت سے دعا ہے کہ ایک چھت تلے رہنے والوں کے دلوں میں محبت اور الفت قائم رکھے اور وہ ایک دوسرے کےدکھ سکھ کے ساتھی بنے رہیں۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین