استقامت کی دعا‎

انسان جس کے لئے محنت کرتاہے وہ اسےمل جاتی ہے۔ فی زمانہ دین اوردینی رویوں کےحصول کےلیے محنت کرنےوالوں کی تعدادنہایت کم ہے۔ اپنےطویل تحریکی سفرمیں ایسےلوگوں کوبھی دیکھا اور بارہا دیکھاجو اوائل عمری میں تودین سےوابستہ ہوئے

لیکن جوں جوں زندگی کےحقیقی مرحلوں سےدوچارہوئےدین پرقائم رہناانہیں مشکل لگنےلگااورشروع کےدنوں کی محنت ضائع کربیٹھے۔ دراصل بچپن، نوجوانی، جوانی، ادھیڑعمری اوربڑھاپا، زندگی کی ان مختلف راہوں سےگزرتےہوئےانسان کےرجحانات، خواہشات اورخیالات میں اس قدرتغیر رونماہوتاہےکہ شروع کی زندگی میں اسکاتصوربھی محال ہے۔ پھرساتھی، مصروفیات اورماحول بھی وقت کےساتھ ساتھ بدلتےرہتےہیں۔ انسان چاہ کربھی ان سب تبدیلیوں سےپیچھا نہیں چھڑاسکتا۔ان سب مراحل میں اللہ کی رضاکےراستےکوپہچان کراس پرثابت قدم رہ جانارب تعالی کی مدداورتوفیق کےبغیرممکن ہی نہیں۔

زندگی نام ہےایک نہ ختم ہونےوالی کشمکش کا، ہر مرحلےپرمقابلہ درپیش ہے۔ مومن کوتویہ مقابلہ تین تین جہتوں سےکرناہوگا۔ نفس سےجہاد، شیطان لعین کی اکساہٹوں سےبچاواوربگڑےہوئےمعاشرےمیں استقامت۔ نفس امارہ توگناہوں میں ہی لذت محسوس کرتاہے۔ شیطان لعین ہروقت نفس کوابھارتا اوربرائیوں کوآرئش دےدےکرپیش کرتاہے۔ تیسری چیزمعاشرےکابگاڑہے۔ ہجوم جس طرف جارہاہواس طرف جاناآسان اورسمت مقابل میں جانامشکل ہے۔ لہٰذادین بچانےکےلیےکشمکش توکرنی پڑےگی اور یہی کامیابی کی راہ ہے زمانےکےرنگ میں رنگ جانے سےمنع کیاگیاہے۔ مومن کوتواللہ کارنگ اختیارکرناہے۔

جب تک ہم زندہ ہیں نفس اپناکام کرتارہتاہے۔ ہم محنت کرکےاسکوگناہ سےکچھ دورکرتےہیں لیکن اگرذرابھی ڈھیل دےدی تووہ انسان کوبےبس کرسکتاہے ذراماحول تبدیل ہواتوآدمی بھٹک کرکہیں سےکہیں جاسکتاہے۔

مومن کوتوہرآن دل کوقلب سلیم بنانےکی جدوجہد بھی درپیش ہے۔ دل میں نفرت، حسد، بغض، ریاکاری اورتکبرکاشائبہ بھی آجائےتوعمربھرکی سعی لاحاصل ہوسکتی ہے۔ بندہ بہت عاجزاوربےبس ہےاپنے دل کےخیالات تک پراسےکنٹرول حاصل نہیں۔ دل بھی یقینااللہ قادروحکیم کےقبضہ وقدرت میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا مانگاکرتےتھے:یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ ترجمہ :  اےدلوں کےپلٹنےوالےمیرادل اپنےدین پرجمائے رکھیے۔(ترمذی،نسائی،حاکم،احمد،ابویعلی عن ام سلمہ)

شکراوردعاانسان کواللہ کےقریب سےقریب تر کردیتی ہے۔ بندےکےپاس اپناکچھ نہیں جوبھی ملا ہے مالک حقیقی کی عنایت ہے۔اگروہ نہ دےتودنیا میں کوئی دوسرانہیں جوکچھ دےسکے۔اسی کےپاس ہرچیزکےخزانےہیں۔لہٰذابندےکاکام بہرحال یہ ہےکہ وہ ایک فقیرومحتاج کی طرح برابراس سےدعاکرتا رہےاورلمحہ بھرکےلیےبھی خودکوبےنیازنہ سمجھے۔ مومن کی شان ہی یہ ہےکہ وہ اپنےپروردگارکونہایت عاجزی اورمسکنت کےساتھ گڑگڑاکرپکارے۔ارشاد نبوی ہے” ۔۔ وہ ایسی دعاکوقبول نہیں کرتاجوغافل اوربےپروادل سےنکلی ہو۔(ترمذی شریف)

اللہ تعالیٰ نےقرآن میں جودعائیں سکھائی ہیں ان سےاچھےالفاظ کوئی کہاں سےلائےگا۔ یہاں یہ تربیت بھی مقصودہےکہ کن دعاوں اور آرزووں سےدل کی دنیا کوآراستہ رکھناہے۔ قرآنی دعاوں میں جوبرکت اور قبولیت کی شان ہوسکتی ہےوہ کسی دوسرےکلام میں ممکن ہی نہیں۔

استقامت کےضمن میں ایک بہت قیمتی دعا سورہ ال عمران میں سکھائی گئی ہے:ربنالاتزغ قلوبنابعداذ ھدیتناوھب لنامن لدنک رحمہ٠٠ انک انت الوھاب (٨:٣)۔۔۔۔ پروردگارجب توہمیں سیدھےراستےپرلگاچکاہےتوپھرکہیں ہمارےدلوں کوکجی میں مبتلانہ کردیجیو۔ ہمیں اپنے خزانہ فیض سےرحمت عطاکرکہ توہی حقیقی فیاض ہے۔

جب کبھی غلط اورناجائزکام کی خواہش پیداہو یہ دعاکرنی چاہیے۔اس میں تعریف وشکربھی ہے،رب العزت کی عظیم قدرتوں کااحساس بھی اوراپنی کمزوری اوربےبسی کااعتراف بھی۔مومن کی سب سےبڑی آرزوہی یہ ہوتی ہےکہ اسے گناہ کےدلدل سےہمیشہ کےلیےنجات مل جائے۔

اےاللہ ہم سب کاخاتمہ ایمان پرکرنااورایک لمحےکے لیےبھی ہمیں ہمارےنفس کےحوالےنہ کرنا۔آمین۔

حصہ