غ ز ہ ! دور حاضر کا کربلا

اللہ کریم نے مسلمانوں کو چار حرمت والے ( عزت و احترام والے) مہینے عطا کیے ہیں ۔زیقعد ،ذی الحجہ ، محرم اور رجب۔ ان میں سے محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جبکہ ذی الحجہ آخری مہینہ ہے۔ پہلے اور آخری دونوں مہینوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے” قربانی “۔

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسین ،ابتدا ہے اسماعیل

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ اولاد آدم کو سب سے زیادہ عزیز اس کی اپنی اولاد ہوتی ہے۔ ذی الحجہ کے مہینے میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا اللہ کے حکم کے آگے سرنگوں ہوتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کو قربانی کے لیے لٹانا ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم بھی رب العالمین کے سامنے اپنی جان و مال اور نفس کی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ جب بھی حکم ربی ہو ہم اسے ادا کرنے میں پل بھر کی بھی تاخیر نہ کریں۔

دوسری قربانی محرم الحرام کے مہینے میں نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی، اپنے اہل و عیال کے ساتھ کربلا کے میدان میں دی گئی۔ یہ قربانی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ظالم اور جابر حکمران کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے بلکہ اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا ہے ۔جب معرکہ حق و باطل ہو تو حق کی خاطر ڈٹ جانا ہے خواہ اس راہ میں اپنی جان و مال، آل و اولاد سب کچھ قربان کر دینا پڑے ہمیں ہر وقت اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہے

آج غ ز ہ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ اہل غ ذ ہ اسوہء ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنی عزیز ازجان ،اپنی متاعِ حیات یعنی اپنی اولاد کو قربان کر رہے ہیں کیوں۔۔۔۔؟ صرف اور صرف رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ۔۔۔ وہ دنیاوی لذتوں کے حصول کے بجائے جنت کے خریدار بن رہے ہیں ۔

غ زہ کا میدان آج کربلا کے میدان کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں معصوم بچوں پر پانی بند ہے، کھانا میسر نہیں، بموں کی بارش ہے جس میں ننھے بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔

آفرین ہے ان معصوم زخمیوں پر کہ جب ڈاکٹر بیہوشی کی دوا نہ ملنے پر ان کا آپریشن ہوش میں ہی کرتے ہیں تو وہ چیخیں نہیں مارتے بلکہ ان کے لبوں پر قرآن مجید کی تلاوت جاری رہتی ہے۔

الغرض کے دونوں قربانیوں کے پیغام کو اہل غ ز ہ نے نہ صرف سمجھا ہے بلکہ ان پر عمل پیرا ہو کر اپنا شمار سابقون والاولون میں کروا رہے ہیں ۔

غ زہ کے میدان میں ماؤں کی گود میں ہمکتے ہوئے پیاسے بچے معصوم علی اصغر کی یاد دلا رہے ہیں۔ کہیں مثل “جگر گوشہء حسین” سکینہ جیسی بچیاں بھوک سے بلکتی نظر آ رہی ہیں۔ کہیں خوبصورت، صحت مند اور کڑیل نوجوانوں کی کٹی پھٹی لاشیں علی اصغر اور علی اکبر شہید کی یاد دلارہی ہیں۔ اس میدان کرب و بلا میں حضرت زینب جیسی مضبوط اعصاب و کردار کی مالک بہنیں بھی نظر آتی ہیں جو وقت کے یزیدوں کو للکار رہی ہیں، انہیں آئینہ دکھا رہی ہیں مگر افسوس  اس وقت کے یزید نے تو نواسی رسول حضرت زینب کے شرم دلانے پر اپنے محل میں سوگ اور ماتم کا اہتمام کیا تھا لیکن آج کے یزید اور ان کے ہمنوا اتنے سنگ دل ہیں کہ ان تک نہ ننھے بچوں کی صدائے العطش پہنچ رہی ہے اور نہ ہی ماؤں بہنوں کی دہائیاں۔

“بے شک غ زہ دور حاضر کا کربلا ہے”

ضرورت اس امر کی ہے کہ نواسہ رسول اور ان کے خاندان نے جس مقصد کے لیے قربانی دی تھی اور یزید کی باطل حکومت کے خلاف جس طرح سینہ سپر ہوئے تھے ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی یزیدی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہوں جائیں ۔حق کی راہ میں اگر جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑے تو ہرگز دریغ نہ کریں کیونکہ معرکہء حق و باطل ہر دور میں بپا ہوتارہا ہے اور ہوتا رہے گا یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنا شمار کس گروہ میں کرواتے ہیں “گروہ حسینی “میں یا” گروہ یزیدی” میں۔

ایک کربلا نہیں ہے فسانہ حسین کا

ہر ایک زندہ دل ہے ٹھکانہ حسین کا

وہ شاہ ہے،بادشاہ ہے،شہنشاہ ہے دین کا

ہوتا نہیں ہے ختم زمانہ حسین کا