“شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن”

قرآن میں اللہ نے شہید کو مردہ کہنے سے منع کیاہے۔

شہید میں حاضر ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ شہید کو حب الٰہی کی وجہ سے شہادت کے وقت درد محسوس نہیں ہوتا۔ جس طرح دنیاوی محبت سے زلیخا کی سہیلیوں کو انگلیاں کٹنے کا احساس نہیں ہوا۔اندھی محبت کسی کو نہر کھودنے پر آمادہ کرتی ہےاور کسی کو کچے گھڑے پر بٹھا دیتی ہے۔ خالق حقیقی کی محبت شھادت کے مقام پر پہنچا دیتی ہے۔ شہادت تو ہزاروں لاکھوں کے حصے میں آئی مگر جو قبولیت اور مقبولیت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصے میں آئی اس کی نظیر نہیں ملتی۔

ہر دور کا اسلام قربانی مانگتا ہے کربلا کا میدان ہو جہاد افغانستان ہو، روہنگیا ہو، کشمیر ،یا شام ہو یا غزہ، شجاعت، صبر برداشت اور توکل کی تصویر نظر آتی ہے۔ جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑا گیا۔ مگر آج اسرائیل اور امریکہ کی دہشت گردی پوری دنیا پر آشکار ہو گئی۔ اور صیاد خود اپنے دام میی پھنس گیااور اسلام کا سافٹ امیج پوری دنیا پہ واضح ہو گیا۔آج امام حسین کی شہادت نوجوانوں کے لیے شجاعت کی علامت بننے کی بجائے مظلومیت کی علامت بن گئی ہے جیسے نماز معراج کی بجائے نوکری کے حصول، مشکلات کے حل اور قرآن اپنے سب سے بڑے مقصد اسلام کے  نفاذ کی بجائے محض پڑھنے  پڑھانے ثواب، رزق کے حصول اور بیماریوں کی شفا کا ذریعہ بن کے رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عبادات کی اصل روح کو سمجھنے والا بنائے آمین۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم میں کوئی ظالم بادشاہ پائے۔ پھر ہاتھ یا زبان سے اسے نہ روکے تو اللہ اسے بھی وہیں داخل کرے گا جہاں ظالم حکمران کو کرے گا۔ یہ انسان کا حق ہے کہ وہ بے جا ظلم زیادتی کو روکے اور روکنے والوں  کا ساتھ دے۔