ہم نے ہمیشہ سے دنیا کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر نظر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہر انسان ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ ہر انسان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اور وہ ان کے مطابق آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔ خاندانی مسائل ایک خاندان تک محدود ہوتے ہیں، علاقائی مسائل اس علاقے کے مکینوں سے وابسطہ ہوتے ہیں، ملک کے مسائل پھر خطے کے مسائل اور پھر کہیں جا کہ ساری دنیا کے مسائل پر دھیان جاتا ہے۔ اس طرح سے قدرت نے ذمہ داریاں سونپی ہوتی ہیں اور وسائل مہیہ کئے ہوتے ہیں، وسائل سے مطابقت ایک گھمبیر مسلۂ ہوتا ہے، آیا کہ ان وسائل کو مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا جائے یا پھر ان سے مسائل پر توجہ دی جائے اور متاثرین کو دیکھائی دے کہ وسائل صحیح طرح سے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ انسان نے اپنی زندگی کو سہولیات سے ہر ممکن آراستہ کرنے کیلئے آسائشوں کا اپنے گرد جال بن رکھا ہے۔ ان آسائشوں کی تکمیل کیلئے کن بنیادی عوامل کو استعمال میں لایا گیا ہے یہ اس کے لئے قطع نظر ہے۔ طبقاتی نظاموں میں بٹی ہوئی دنیا نے کسی کو بہت کچھ دے رکھا ہے اور کہیں کچھ بھی نہیں ہے، کسی بات سننے کیلئے کھڑے ہونا پڑتا ہے اور کسی بات چلتے پھرتے بھی سننا گوارا نہیں ہوتا۔ ہم سب مختلف نظریوں کی پاسبانی کرتے ہیں۔لیکن قدرت نے زندگی گزارنے اور دنیاوی امور کے حوالے سے ایک باضابطہ حتمی لائحہ عمل ترتیب دے رکھا ہے اب ہو کیا رہا ہے کہ اس لائحہ عمل میں اپنے اپنے انداز فکر سے ترامیم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قدرت اپنی تخلیق کے شاہکار کو کبھی بھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑتی، یہ اور بات ہے حضرت انسان یہ سمجھنے لگ جائے کہ دنیا میں بھرے رنگ اس کے مرہونِ منت ہے تو پھر قدرت کہتی ہے تو پھر ٹھیک ہے ان رنگوں کو سنبھال لو جو کہ ممکن ہی نہیں ہے رنگوں نے تو ماند پڑنا ہی ہے پھر کیوں ان کی رعنائی پر انسان اتراتا پھرتا ہے اور پھر اپنا سا منہ لئے یہ کہتا پھرتا ہے یوں ہوگیا یوں ہوگیا جبکہ اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ درحقیقت وہی ہوا ہے جو ہونا تھا۔
دورِ حاضر کا ایک سب سے بڑا مسلۂ عالمی پیمانے پر درجہ حرارت میں ہونے والا بتدریج اضافہ ہے جسے عمومی طور پر گلوبل وارمنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی دنیا کو گلوبل وارمنگ جیسے انتہائی گھمبیر مسلئے نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ درجہ حرارت میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ گرمی میں اضافہ ہے جس کے باعث انسان کیلئے زندگی کے معمولات میں دشواری کا سامنا کرنا ہے۔ عالمی ادارہ موسمیا ت جو اقوام متحدہ سے منسلک ایک ادارہ ہے جو دنیا میں رونما ہونے والی موسمی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری نبہا رہا ہے۔ دنیا کے فیصلہ سازوں نے اور محقیقین نے سر جوڑ لئے کہ کس طرح سے اس گلوبل وارمنگ کا سامنا کیا جائے۔ سب سے پہلے تو حکومتی سطح پر اس کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے وزارتِ ماحولیات قائم کر دی گئی تاکہ باقاعدہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبرد آزما ہوا جا سکے اور عوامی سطح پر بھی اس کی اہمیت اجاگر ہوسکے۔ سب سے اہم جز جو سامنے آیا وہ ہے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں جس پر ساری دنیا میں زور و شور سے کام جاری ہے، درخت لگانے کی کوششوں کو اور ان کی نمو کیلئے ہر عمل کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ اس ایک کام کے برعکس جس پر ساری دنیا نے بھرپور توجہ دے رکھی ہے، دوسری طرف ماحول کو تباہ کرنے والے عوامل کی مقدار بہت زیادہ ہے، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے مادے، گھروں کو اور دیگر اشیاؤں کو ٹھنڈا رکھنے والی مشینیں، درختوں کی کٹائی جو ہماری زندگیوں کو سہل بنانے کیلئے ہے (کاغذ اور ٹشو پیپرز کی صنعتیں)، شور و غوغہ یہ وہ کچھ بنیادی ایسے کام ہیں جن میں کمی یا انکے متبادل پر اس تیزی سے کام نہیں کیا جارہا جیسا کہ کرنا چاہئے۔ ابھی حج ۴۲۰۲ میں ہونے والی ہلاکتوں کا باعث بھی انتہائی گرم موسم ہے۔ دھوپ کی ایسی شدت کہ لمحہ بھر میں جسم کا سارا پانی خشک کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان نے مصنوعی طریقوں سے اس گرمی کو مخصوص جگہوں پر کم یا ختم کرنے کے لئے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی مشینیں لگا لی ہیں اور یہ مشینیں بہت بڑی تعداد میں لگی ہوئی ہیں جہاں گرمی بڑھ رہی ہے وہیں ان مصنوعات کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ ان مصنوعات سے جہاں محدود رقبے کو ٹھنڈا رکھا جاسکتا ہے وہیں اس سے نکلنے والی گرمی بیرونی ماحول میں مزید گرمی میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اگر محدود افراد اس آسائش سے مستفید ہورہے ہیں تو کثیر تعداد میں اس سے نکلنے والی گرمی سے متاثر ہو رہے ہیں، اس مصنوعی آسائش کو آپ بغیر بجلی کے استعمال نہیں کرسکتے جو کے مختلف ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے اور اس سے بھی ماحول پر برا اثر پڑتا ہے۔ ساری دنیا میں کہیں نا کہیں فساد مچا ہوا ہے۔ دنیا طاقت کے نشے میں اسلحہ کی پیداوار نا صرف بڑھانے کی جستجو میں لگی ہوئی ہے وہیں زندگی کیساتھ ساتھ ماحول کیلئے بھی مہلک ترین ہتھیار تیار کئے جا رہے ہیں۔ ان مہلک ہتھیاروں کی تیاری اور تجربات سے بھی ماحول کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ فلسطین کی تازہ ترین صورتحال سے اندازہ لگا لیجئے کے ایک معصوم بچی کو ۵۵۳ گولیوں ماری گئیں ہیں، اسلحہ کا ایسا استعمال تاریخ نے شائد پہلے کبھی نا دیکھا ہوگا اور نا ہی لکھا ہوگا، انگنت مزائل گرائے جا رہے ہیں گولہ باری کی جارہی ہے یعنی ہر قسم کا مہلک ترین ہتھیار بے دریغ بغیر کسی کے خوف کے معصوم اور نہتے لوگوں پر استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ان معصوم بے قصور بچوں کی آہیں اور سسکیاں کیا ضائع ہوجائیں گی، ہم بے حس ہوسکتے ہیں لیکن ان کا تخلیق کرنے والا نہیں۔ حضرت انسان نے وسائل کی قلت کے پیش نظر دیگر ذرائع سے توانائی کے حصول کیلئے کام کرنا شروع کردیا ہے، لیکن یہاں بھی قدرتی وسائل کی بنیاد پر ہی ایسا ممکن ہوسکے گا جس سے قدرت کے امور میں ایک بار پھر سے دخل اندازی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ نا تو ہم قدرت کی مانتے ہیں اور نا ہی قدرت کو منانے والے کام کرتے ہیں۔
دنیا کی تباہی میں اس گرم موسم کا بہت بڑا کردار ہے اور موسم کو گرم کرنے میں انسان کی آسائشوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور پھر موسم کے گرم ہونے میں قدرت کے ناراض ہونے کو بھی بالائے طاق نہیں رکھ سکتے، انسان نے جب سے قدرت کے امور میں دخل اندازی شروع کی ہے تب سے ہی قدرت نے اپنے معاملات میں تبدیلی انسانوں کے لئے عذاب کی صورت میں کرنی شروع کردی ہے۔ سمندری طوفان ہوں، بارشیں ہوں، پہاڑوں کا لاوا اگلنا ہو، جنگلوں میں آگ کا لگنا ہو یا پھر بے تحاشہ بارشوں کا ہونا ہو یہ سب قدرت کی طرف سے ایک طرف تو انسان کی غیر ضروری دخل اندازی کی وجہ سے ہے یا پھر انسان کی ایسی تحقیقاتوں کا نتیجہ ہے جس سے قدرت کی مستقل مزاجی میں دخل اندازی ہو۔ عارضی سا جائزہ پیش کیا ہے گلوبل وارمنگ کے حوالے سے جس کی وجہ سے دنیا میں مادی تباہیاں رونما ہو رہی ہیں اور دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔اب ہم بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں انسانوں کے اعمالوں کی جن کی وجہ سے دنیا اپنی تباہی کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ چوری، ناحق خون، زنا، بے حیائی، نافرمانی، رشتوں کی ناقدری، مفاد پرستی، جھوٹ، شراب نوشی دیگر نشے اور تعلقات کی بے قدری معاشرتی اقدار کو گھسیٹ کرتباہی کے دہانے پر پہنچا رہے ہیں۔ یہاں سماجی ابلاغ کا ذکر نہ کرنا تباہی کی داغ بیل سے انحراف کرنے کے مترادف ہوگا، اس موبائل نامی شے نے زندگی کا ڈھب ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ نا آپ کسی پر شک کرنے کا جوازرکھتے ہو اور نا ہی کسی کو ایسا کرنے کا حق دیتے ہو، اب کرنے والے جو چاہیں وہ کرتے ہیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ آج کے معاشرے نے پچھلی تمام معاشرتی اقدار کر یکسر رد کردیا ہے اور اپنی مرضی بلکہ مغرب سے متاثر ہوتے ہوئے ان کی طرز پر معمولات زندگی استوار کرنے کی جستجو میں مگن ہیں اور مغرب سے مشرق کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے۔ اسے ہم دو تہذیبوں کا تصادم بھی کہہ سکتے ہیں اور لفظ تصادم کسی نا کسی تباہی کا ہی پیش خیمہ ہوتا ہے۔تباہی اگر ایک لفظ ہے تو اس کی دو باگیں ہیں ایک کو ہم نے گلوبل وارمنگ کہہ دیا ہے اور دوسری کو میں اقدار کی بے قدری کہہ لیتا ہوں یہ دونوں مل کر دنیا کی تباہی بننے جا رہے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ معجزوں کی راہ دیکھی ہے اور رب کائنات کی لامتناہی قدرت کا اندازہ بھی خوب ہے لیکن قدرت کی ہم نے کس کس طرح سے نافرمانیاں کی ہیں یہ ہم سب خوب جانتے ہیں۔ آسائشوں میں اضافے پر مسلسل کام ہورہا ہے جس کی وجہ سے قدرتی ماحول کسی نا کسی طرح سے متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قدرت کہاں تک ہماری نافرمانیوں اور بے جا اپنے کاموں میں دخل اندازی کو برداشت کرتی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہم نے آسائشوں اور سہل زندگی گزارنے کیلئے راستہ تباہی کا چن رکھا ہے۔ ہم تباہی سے بچنے کیلئے تباہی کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کا اندازہ تباہ ہوکر ہوجائے گااور وہ دن دور نہیں جب ہم باقاعدہ تباہ ہو رہے ہونگے۔ پلٹنا پڑے گا جو کہ یقینا نا ممکن سی بات ہے ورنہ سفر تباہی کی جانب تیزی سے بڑھتا ہی جائے گا۔ خاکم بدہن مگرایسا ہی دیکھائی دے رہا ہے کہ اب بس تباہی ہی ہوگی۔