فلسطین ہمارا ہے

سخت گرمی پڑ رہی تھی حبس بہت بڑھ گیا تھا اسی حبس اور گرمی کو کم کرنے کے لئے فہد آئس کریم کھا رہا تھا۔ فہد نے اپنے والد ارسلان صاحب سے پوچھا “بابا ! آئسکریم کھائیں گے؟”نہیں بیٹا ! آپ کھائیں ۔ اخبار میں مصروف ارسلان صاحب نے سر اٹھائے بغیر ہی جواب دیا ۔ فہد ایک نظر اپنےوالد پر ڈال کر پھر آئسکریم کھانے لگا ۔ اس گرمی کے موسم میں ٹھنڈی آئسکریم بچوں بڑوں سب کو ہی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ فہد کے پاس ہی بیٹھی نمرہ موبائل اسکرول کررہی تھی فیس بک میں زیادہ تر ویڈیوز فلسطین کے زخمی بچوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اتنے میں فہد کی والدہ مریم وہاں آتی نظر آئیں اور فریج کھول کر ٹھنڈی کوک پینے لگیں ۔ فہد کی نظریں ابھی موبائل پر ہی تھیں ۔ وہاں فلسطین کے زخمی لہو لہان بچے نظر آرہے تھے۔ جب اس نے اپنی والدہ مریم کو کوک پیتے دیکھا تو بولا ماما ! کل میری ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ فلسطینیوں پر بہت ظلم ہورہا ہے۔ ہمیں ایسی تمام پراڈکٹ کا بائیکاٹ کرنا چاہیے جو اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اور کوک بھی اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہے۔ اور ٹیچر یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ “جب ہم کوک پیپسی پیتے ہیں تو ہمارے ان پیسوں سے وہ فلسطینی بچوں کو مارنے کے لئے بم اور اسلحہ وغیرہ خریدتے ہیں”۔ مریم بیگم بولیں یہ اسکول والے بھی کیا فضولیات بچوں کے زہن میں بھر رہے ہیں۔ بھلا کوک کا فلسطین سے کیا تعلق ؟ اور کوک تو ہم نے اپنی ساتھ والی بیکری سے خریدی ہے اور ویسے بھی ایک میرے کوک نہ پینے سے کون سا فلسطینیوں پر ظلم رک جائے گا اور کوک میری فیورٹ ہے میں اسے نہیں چھوڑ سکتی۔ اخبار پڑھتے ارسلان صاحب نے افسوس سے مریم بیگم کی طرف دیکھا “ہاں تو میں کیا غلط کہہ رہی ہوں ” آپ غلط کہتی ہی کب ہیں ؟

ارسلان صاحب وہاں سے اٹھ کر چلے گئے” اگلی صبح مریم نے اپنی بیٹی نمرہ کو بریڈ لینے دکان پر بھیج دیا- تھوڑی ہی دیر بعد نمرہ روتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی نمرہ بیٹا آپ بریڈ لینے گئی تھیں نا؟ رو کیوں رہی ہیں؟ اور بریڈ کہاں ہے؟ نمرہ کی والدہ مریم نے اس سے پوچھا نمرہ نے روتے ہوئے بتایا کہ ماما میں بریڈ لینے گئی تھی ۔ اور میرا ہاتھ وہاں پڑی ہوئی انڈوں کی ٹرے پر لگا اور تین انڈے ٹوٹ گئے۔ انکل نے مجھے اتنی زور سے تھپڑ مارا۔ یہ کہہ کر نمرہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اپنی بیٹی کے یوں لال گال دیکھ کر مریم بیگم کو بہت غصہ آرہا تھا۔ ان کا دل چاہا کہ وہ اس بیکری والے کے بھی دو چار تھپڑ رسید کرے۔ اس دکاندار کی ہمت کیسے ہوئی؟ میری نازوں پلی بیٹی کو اس نے تھپڑ مارا ۔ مریم صاحبہ کا غصہ عروج پر تھا وہ نمرہ کا ہاتھ پکڑے اس بیکری پر گئیں اور اس آدمی کو خوب سنائیں کہ اگر تمہارے انڈے ٹوٹ گئے تھے تو ہم سے پیسے ہی مانگ لیتے میری بیٹی کو کیوں مارا تم نے۔ گھر آکر بھی مریم کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا اس نےاپنے بچوں فہد، نمرہ یہاں تک کہ ارسلان صاحب سے بھی کہہ دیا کہ اب سے ہم اس بیکری والے سے کچھ نہیں خریدیں گے۔ لیکن ماما اس بیکری کی پیسٹریز میری فیورٹ ہیں میں وہ نہیں چھوڑ سکتا۔

جب میں نے ایک دفعہ کہہ دیا کہ اس بیکری سے کوئی کچھ نہیں لے گا تو تم کیوں نہیں سمجھ رہے فہد ! مریم نے اپنے بیٹے فہد کو ڈانٹا یہ بات خود آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہی بیگم پھر آپ ایک چھوٹے بچے سے کیا امید رکھتی ہیں ۔ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ ارسلان صاحب ؟ یہی کہ مریم جب آپ سے کہا جاتا ہے اسرائیل فلسطینی بچوں کا قتل عام کررہا ہے آپ اس کی تمام پراڈکٹ چھوڑ دیں تو آپ نے کہا “میں کوک نہیں چھوڑوں گی وہ میری فیورٹ ہے۔” اور ایک میرے کوک نہ پینے سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہوگا ؟ آج جب آپ کی بیٹی کو ایک تھپڑ لگا تو آپ یہ چاہتی ہیں کہ ہم اس بیکری سے کچھ نہ خریدیں۔

آپ کو معلوم ہے ہمارے پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ “سب مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں” ۔ بالکل ویسے جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے تو کیا ہمیں اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کو اس دکھ کی گھڑی میں اکیلے چھوڑنا چاہیے یا ان کا ساتھ دینا چاہیے ؟ مریم جس طرح آپ کو اپنے بچے عزیز ہیں اس طرح فلسطینی بچے بھی آپ کو عزیز ہونے چاہئیں ۔ کیونکہ مسلمان کا خون ارزاں نہیں ہے۔ مریم بیگم اپنا سر جھکائے کھڑی تھیں۔ انہیں واقعی سمجھ آگیا تھا کہ بائیکاٹ کیوں کرنا چاہیے۔ مریم نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنی کوک فریج سے نکال کر سنک میں الٹ دی۔ یہ ہوئی نا بات ! ارسلان صاحب خوش ہو کر بولے ۔

ہرررررررررےےےےےےے !!

فہد اور نمرہ نے زور سے نعرہ لگایا ۔

فلسطین ہمارا ہے !